دیتے اور اپنے پاس بٹھاتے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو انہیں دیکھ کر بھی آپ کھڑے ہو جاتے تھے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کا بھی آپ کی تعظیم میں کھڑا ہونا ثابت ہے۔
لہٰذا صاحبِ علم و فضل یا صاحبِ محبت کی آمد پر کھڑا ہو نا جائز ہے بشرطیکہ اس سے آنے والے کے دل میں تکبر پیدا ہونے کا خدشہ نہ ہو وگرنہ جائز نہیں اور خود اس بات کا خواہش مند ہونا کہ لوگ میری آمد پرکھڑے ہوں یہ تو بالکل ہی جائز نہیں۔ ایسی خواہش پرحدیث مبارک میں جہنم کی وعید آئی ہےاور اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اپنے ماتحتوں کو اس بات پر مجبور کرناکہ وہ آمد پر کھڑے ہوں ، بات کھڑے ہو کر کریں اور جب تک بالا شخص بیٹھا ہو وہ کھڑے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس مرض سے محفوظ رکھے۔
حدیث: حضرت یوسف بن عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام رکھا۔ مجھے اپنی گود میں بٹھایااور میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت پیار فرماتے تھے۔ ان کے سر پر شفقت سے ہاتھ مبارک بھی پھیرتے تھے۔ گود میں اٹھاتے تھے۔بعض اوقات بچے آپ کی گود میں پیشاب بھی کر دیتے تھےمگر آپ نے کبھی برا نہیں منایابلکہ پانی منگوا کر تہبند کو دھودیا۔ یہ آپ کی تواضع اور انکساری کی دلیل اور بچوں کے ساتھ نہایت محبت کی علامت ہے۔
اس حدیث سے نو مولود بچوں کو بزرگوں کی خدمت میں لے جانے، نام تجویز کرانے اور برکت کی دعاکرانے کا جواز ملتا ہے۔