برابر تھے۔آپ کی مجلس علم و حیا اور صبر وامانت والی ہوتی تھی۔ آپ کی مجلس میں آواز بلند نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی کسی کی ہتک عزت ہوتی تھی۔ اس مجلس میں اگر کسی سے لغزش ہوجاتی تو اسکی تشہیر نہ کی جاتی تھی۔ سب کو برابر حیثیت دی جاتی تھی۔ ایک دوسرے پر فضیلت محض تقوی اور دین کی بنیاد پر ہوتی تھی۔
ہر شخص دوسرے کے ساتھ عاجزی کےساتھ پیش آتا تھا۔ بڑوں کا احترام کرتے تھے، چھوٹوں پر شفقت فرماتے تھے،ضرورت مندوں کو ترجیح دیتے تھے (یعنی ضرورت مندوںکی ضرورت پوری کرتے تھے) اور مسافر آدمی کا بڑا ہی خیال کرتے تھے۔
حدیث: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری تعریف میں مبالغہ نہ کروجیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ کیا(کہ انہیں اللہ کا بیٹا بنادیا) میں تو اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے مجھے اس کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہو۔
حدیث: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے عرض کیا کہ حضرت مجھے آپ سے تنہائی میں بات کرنی ہے۔حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مدینہ میں کسی سڑک کے کنارے پر بیٹھ جاؤمیں وہیں آکر تمہاری بات سن لیتا ہوں۔
زبدۃ:
یہ عورت کچھ بے عقل سی تھی اسکے باوجود حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکی بات توجہ سے سنی۔ سڑک کے کنارے اس لیے بیٹھنے کا فرمایاکہ عورت کے ساتھ تنہائی نہ ہو اورچونکہ ایسی عورتوں کو زنانہمکان پر بلانے میں گھر کی عورتوں کو پریشانی ہوتی ہے اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سڑک پر ہی اس کی