آپ کی کسی معاملہ میں دو رائے نہ ہوتی تھیں (کہ کبھی کچھ فرمادیں اور کبھی کچھ -العیاذباللہ ) حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی اصلاح سے غفلت نہ فرماتے کہ کہیں یہ لوگ دین سے غافل نہ ہوجائیں یا حد سے تجاوز کریں اور بعد میں اکتا جائیں۔ آپ کے پاس ہر حال کے مناسب سامان رہتا۔ آپ حق بات میں نہ تو کوتاہی فرماتے اور نہ ہی حد سے تجاوز فرماتے تھے۔ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے والے آپ کے قریبی لوگدیگر لوگوں میں سے بہترین لوگ ہوتے تھےاور پھر ان میں سے بھی زیادہ بہتر وہ لوگ شمار ہوتے تھے جو خیر خواہی میں بڑھے ہوئے تھے۔ آپ کے نزدیک بھی بلند مرتبہ وہی لوگ شمار ہوتے تھےجو انسانی ہمدردی اور باہمی تعاون میں دوسروں سے آگے ہوتے تھے۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کے معمولات دریافت کیے تو انہوں نے فرمایا: آپ کی مجلس کا آغاز اور اختتام اللہ تعالیٰ کے ذکر پر ہوتا تھا۔ جب آپ کسی قوم کے پاس تشریف لے جاتےتو جہاں مجلس ختم ہوتی وہیں تشریف رکھتے۔ آپ دوسرے لوگوں کو بھی یہی تعلیم دیتے تھے۔
آپ کے پاس بیٹھنے والا ہرشخص یہ سمجھتا کہ آپ میرا اعزازواکرام سب سے زیادہ فرماتے ہیں۔ جو شخص آپ کے پاس بیٹھتا یا آپ کے ساتھ کسی کام میں شریک ہوتاتو اسکے ساتھ بیٹھے رہتے یہاں تک کہ وہ خود ہی اٹھ کر چلا جائے۔ جو شخص آپ سے کوئی ضرورت کی چیز مانگتا تو آپ اسکی ضرورت پوری فرمادیتےاور اگر ضرورت پوری نہ فرماسکتےتو نرمی کے ساتھ جواب دے دیتے۔
آپ کی خوش اخلاقی تمام لوگوں کے لیے عام تھی۔ آپ شفقت فرمانے میں تمام لوگوں کے لیے بمنزلہ باپ کے تھےاور تمام لوگ حقوق میں آپ کے نزدیک