ضرورت بادشاہ تک پہنچائے جو خود نہیں پہنچاسکتا تو حق تعالیٰ شانہ قیامت کے دن اسکو ثابت قدم فرمائیں گے۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایسی ہی اچھی باتوں کا تذکرہ ہوتا تھا۔ اسکے علاوہ کوئی لایعنی بات وہاں نہ ہوتی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر کے طالب بن کر آتے تھےاور کوئی چیز چکھے بغیر وہاں سے نہ جاتے تھے(یعنی آپ انکو دین بھی سکھاتے اور جو کچھ موجود ہوتاوہ بھی پیش فرماتےتھے)وہ لوگ نیکی کے راہنما بن کر آپ کی مجلس سے جاتے تھے۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے باہر کے معمولات کیا تھے؟انہوں نے فرمایا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زبان مبارک کو محفوظ رکھتے، سوائے بامقصد بات کے کوئی بات نہ فرماتے تھے۔ آپ لوگوں کی دلجوئی فرماتے تھےاور انکو متنفر نہ فرماتے تھے(یعنی ایسی بات نہ فرماتے کہ لوگوں کو آپ سے وحشت ہو یا دین سے نفرت ہونے لگے)۔
ہر قوم کے معزز اور شریف آدمی کا احترام فرماتے تھے۔پھر اسکو اس قوم پر سردار مقرر فرمادیتے تھے۔ لوگوں کو(عذابِ الہٰی یا غیروں کے شر سے) خبردار فرماتے اور خود بھی (لوگوں کے شر سےبچنے کی تدبیر ) اختیار فرماتے تھےمگر ہر شخص سے اپنے چہرے کی خندہ پیشانی اور خوش خلقی سے پیش آتے تھے(یعنی احتیاط کے باوجود خوش اخلاقی کا مظاہرہ جاری رہتا تھا) اپنے ساتھیوں کی خبر گیری فرماتے تھےاور انکے آپس کے معاملات کی تحقیق فرماکر انکی اصلاح فرماتے تھے۔ہر اچھی بات پر حوصلہ افزائی فرماتے اور ہر بری بات کی حوصلہ شکنی فرماتے تھے۔ ہر کام میں میانہ روی اختیار فرماتے تھے۔