سے نکاح کرلیاجوکہ سردار تھا، عمدہ گھوڑے پرسوار ہوکرخطی نیزا پکڑتاتھا، بڑاشاہسوار تھا، مجھے اس نےبے شمار نعمتیں دیں، ہرقسم کے جانوروں کاجوڑاجوڑادیااور کہاکہ ام زرع! خوب کھاؤپیئواور اپنے گھر والوں کو بھی پہنچاؤ۔ ام زرع کہتی ہیں:اگر میں اس دوسرے خاوند کی دی ہوئی ساری چیزوں کو بھی جمع کرلوں توبھی ابوزرع کے ایک برتن کو نہیں پہنچ سکتیں۔
حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اسکے بعدحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے حق میں ایساہوں جیسا ابوزرع ام زرع کے حق میں۔
زبدۃ:
1: ان روایات سے پتاچلتاہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےقصہ بیان ہوااور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سماعت بھی فرمایا۔ بعض روایات سےحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےقصہ بیان کرنابھی ثابت ہے۔ لہٰذااس سے قصہ سننے اور سنانے کاجواز بھی نکلتاہے۔ مگر قصہ گوئی کے لیے شرط یہ ہےکہ قصہ ایسانہ ہوجس سے اخلاق تباہ ہوں،اس سے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو،اس میں کسی کی غیبت ہوبلکہ اہلِ خانہ کے سامنےکوئی قصہ انکی دل جوئی کے لیے بیان کرنا توبہت ہی اچھی بات ہے۔
2: اس آخری اور دوسری روایت میں چونکہ ام زرع کے قصہ کی تفصیل ہےلہذا اس روایت کانام ”حدیث ام زرع“ پڑگیاہے۔مگر اس پر ایک اعتراض یہ ہوتاہےکہ اسمیں توعورتوں نے اپنے خاوندوں کے عیب بیان کیےتھےاور یہ توسراسر غیبت ہے پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے سن لیے؟ اس کاآسان ساجواب یہ ہےکہ کسی ایسےغیر معروف شخص کے حالات کوبیان کرناجس کو لوگ نہ جانتے