پوچھا: آپصلی اللہ علیہ و سلم کس بات پرہنسے تھے؟ توانہوں نےفرمایا: کافروںمیں سےایک شخص کے پاس ڈھال تھی اور سعد اگرچہ بڑے تیر اندازتھےمگر وہ کافر شخص اپنی ڈھال کوادھر ادھر کرکے ڈھال کےذریعہ اپنی پیشانی کابچاؤ کرلیتاتھا۔
سعد نے (ایک موقع دیکھ کر) اپنے ترکش سے تیر نکالااور کمان میں چڑھایا۔ پھر جونہی اس کافر نےاپناسر اس ڈھال سے اوپر اٹھایا تو سعد رضی اللہ عنہ نے فوراًتیر چلایا۔اب یہ تیر خطا نہ ہوا بلکہ سیدھا اس شخص کی پیشانی پر لگا تووہ شخص الٹ گیا،اس کی ٹانگیں اوپر کواٹھ گئیں، پس حضر ت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے حتی کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کس بات پر ہنسےتھے؟توانہوں نے کہاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر ہنسے تھےجوانہوں نے اس مشرک کے ساتھ کیا۔(یعنی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی چالاکی اور پھر اسکی سزاچکھ لینے کی وجہ سےہنسےتھے)۔
2: ہنسی کی تین قسمیں ہیں:
(۱): تبسم... یعنی مسکرانا۔اس میں آدمی کامنہ توکسی قدر کھلتاہےمگر ہنسی کی آواز نہیں آتی۔
(۲):ضحک... یعنی ہنسنا۔اسمیں انسان منہ کھول کر ہنستاہے، اسمیں آوازبھی نکلتی ہے لیکن ہنسی کی آوازذراکمزور ہوتی ہے۔
(۳):قہقہہ...اس میں آدمی پورامنہ کھول کر ہنستاہے اور آواز بھی خو ب نکلتی ہے۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی کیصرف پہلی ہی دوقسمیں ثابت ہیں، تیسری قسم ثابت نہیں کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی غفلت کی علامت ہے۔اگر ہنسی کی بات ہوتوہنسی آجانافطری اورطبعی بات ہےمگر اس کی بھی ایک حد ہے۔ ہر وقت ہنسی