آخر میں جہنم سے نکالاگیاہے۔ جب اس کایہ حال ہےتومتقی اورپرہیزگاروں پرکیاکیاانعامات ہوں گے؟!)
حدیث: حضرت علی بن ربیعہ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس سواری لائی گئیتوآپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے”بسم اللہ“ کہااور جب سوار ہو چکے تو”الحمدللہ“ کہاپھر یہ دعاپڑھی:
سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ․وَإِنَّا إِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ.
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کردیااور ہم تواسکوقابونہ کرسکتے تھے اور ہم نے اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹ کرجاناہے۔
پھر تین دفعہ الحمدللہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا، پھر یہ دعامانگی:
سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہُ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّااَنْتَ.
ترجمہ: تیری ذات ہرعیب سےپاک ہے،تو مجھے معاف فرمادےکیونکہ تیرے علاوہ میرے گناہوں کوکوئی بھی معاف نہیں کرسکتا۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنس پڑے۔ حضر تعلی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:اے امیر المؤمنین! آپ ہنسے کیوں ہیں؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوایسےہی کرتے دیکھاجیسے میں نے خود کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلمبھی ہنسے تھے تو میں نےعرض کیاتھا: اےاللہ کےرسول!آپ کیوں ہنسے ہیں؟آپصلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا: جب بندہ یہ کہتاہےکہ یااللہ میرے گناہ معاف فرمادے،کیونکہ بندہ جانتاہےکہ میرے گناہ اللہ کےسواکوئی نہیں بخش سکتا تواللہ تعالیٰ اس بندےکی اس بات پربہت خوش ہوتے ہیں۔
حدیث: حضرت عامر بن سعد سے روایت ہےکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ میں نےجنگِ خندق کےموقع پرحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوہنستے ہوئےدیکھاحتیٰ کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔عامر کہتے ہیں کہ میں نے