ظاہر کررہاہے۔)
حدیث: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سےمیں نےاسلام قبول کیاحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حاضر خدمت ہونے سے کبھی نہیں روکااور آپ مجھےجب بھی دیکھتے توہنستے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ مسکراتے تھے۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں اس شخص کوپہچانتاہوں جوسب سے آخر میں دوزخ سےنکلےگااور وہ آدمی گھسٹتاہوانکلےگا،اس کوحکم ہوگاکہ جاؤجنت میں داخل ہوجاؤ! وہ جنت میں داخل ہونے کے لیے جائے گاتودیکھے گاکہ تمام لوگوں نےاپنی اپنی جگہ ٹھکانہ پکڑاہواہے(یعنی جنت میں جگہ نہیں ہے)۔
وہ واپس آئے گااور اللہ تعالیٰسے صورت حال عرض کرے گا۔پھر اس سے کہا جائے گاکہ تجھے دنیاکاوہ زمانہ یادہےجس میں تم رہاکرتے تھے(یعنی دنیاکتنی فراخ اور کشادہ تھی) وہ عرض کرے گا:جی ہاں یاد ہے۔ حکم ہوگا کہ اب تم کچھ تمناؤں کا اظہار کرو! چنانچہجو اس کا دل چاہے گا وہ اپنی انخواہشات کااظہار کرے گا۔پھر اسکو کہا جائے گا کہ جن چیزوں کی تم نے آرزو کی ہے وہ بھی تم کودیااور پوری دنیاسے دس گنامزید زیادہ بھی تم کو دیا۔ وہ شخص کہے گا: یااللہ! آپ توبادشاہ ہیں، آپ بھی میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےدیکھاکہ اس موقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسےکہ آپ کےدندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ (حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ہنسناحق تعالیٰ کے انعام واکرام کی زیادتی کی بناء پر تھاکہ یہ انعام تو اس شخص پر ہےجو سب سے زیادہ گنہگار ہےتبھی توسب کے