تراہ الحامل وما تراہ المرأة فی حال ولادتھا قبل خروج الولد استحاضة ]١١٦[(١٩) واقل النفاس لا حد لہ واکثرہ اربعون یوما ومازاد علی ذلک فھو استحاضة ]١١٧[(٢٠) واذا تجاوز الدم علی الاربعین وقد کانت ھذہ المرأة ولدت قبل ذلک ولھا عادة فی النفاس ردت الی ایام عادتھا وان لم یکن لھا عادة فنفاسھا اربعون یوما
خالی رحم سے نکلتا ہے اور یہاں رحم بچہ سے بھرا ہوا ہے(٢) حیض کی جھلیاں کٹ کٹ کر اگر تی ہیں تو حیض ہوتا ہے اور بچہ کی حالت میں بچہ کا آنول جھلیوں کے ساتھ چپکا ہوتا ہے اس لئے جھلیاں نہیں کٹ سکے گی اس لئے وہ حیض کا خون نہیں ہے۔اسی طرح بچہ کی وجہ سے رحم کا منہ بند ہے اس لئے نہ حیض آ سکتا ہے اور نہ نفاس۔ اس لئے وہ استحاضہ کا خون ہے۔
فائدہ امام شافعی اس کو حیض قرار دیتے ہیں
]١١٦[(١٩)نفاس کی کم سے کم مدت کے لئے کوئی حد نہیں ہے اور اس کی زیادہ مدت چالیس دن ہیں اور جو اس سے زیادہ ہو وہ استحاضہ ہے۔
وجہ حدیث میں ہے عن ام سلمة قالت کانت النفساء تجلس علی عھد رسول اللہ ۖ اربعین یوما (الف) ( ترمذی شریف، باب ماجاء فی کم تمکث النفساء ص ٣٥ نمبر ١٣٩)اور ابو داؤد شریف کی روایت میں یہ جملہ زیادہ ہے۔ لا یأمر ھا النبی ۖ بقضاء صلواة النفاس (ب) (ابوداؤد شریف، باب ماجاء فی وقت النفساء ص٤٩ نمبر ٣١٢) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نفاس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ۔اس کے بعد جو خون آئے گا وہ استحاضہ ہوگا۔اور کم کی کوئی حد نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے ۔ عن انس قال قال رسول اللہ ۖ وقت النفاس اربعون یوما الا ان تری الطہر قبل ذلک (ج) (دار قطنی ، کتاب الحیض ،حدیث نمبر ٨٤١ترمذی شریف حدیث نمبر١٣٩) الا ان تری الطہر قبل ذلک سے معلوم ہوا کہ چالیس دن سے پہلے خون بند ہو جائے یو چاہے چند گھنٹے کے بعد خون بند ہو جائے عورت پاک ہو جائے گی۔
]١١٧[(٢٠)نفاس کا خون چالیس دن سے تجاوز کر جائے حالانکہ یہ عورت اس سے پہلے بچہ جن چکی تھی اور اس کے لئے نفاس میں عادت تھی تو نفاس کا خون لوٹایا جائے گا اس کی عادت کی طرف۔اور اگر اس کی عادت نہ ہو تو اس کے نفاس کی مدت چالیس دن ہے۔
تشریح جس عورت کو پہلے بچہ پیدا ہو چکا ہو اور نفاس کے لئے اس کی ایک عادت ہو مثلا پچیس روز نفاس آتا ہو اب اس کو پچاس روز تک خون آ گیا تو دس روز تو یقینا استحاضہ ہے اس لئے اس دس روز کے ساتھ باقی پندرہ دن بھی استحاضہ شمار کیا جائے گا۔ اور اس کی پہلی عادت کے مطابق پچیس روز ہی نفاس ہوگا۔ کیونکہ چالیس دن کے بعد والے دس دن استحاضہ ہے تو معلوم ہوا کہ پچیس دن کے بعد بھی استحاضہ ہی آیا ہے۔ اور اگر اس عورت کی کوئی عادت نہیں ہے تو حدیث کے مطابق چالیس روز نفاس ہوگا اور باقی دن استحاضہ ہوگا۔عادت کی طرف پھیرنے کی دلیل
حاشیہ : (ب) ام سلمہ فرماتی ہیں کہ نفساء عورت حضورۖ کے زمانے میں چالیس دن تک بیٹھتی تھی (نماز نہیں پڑھتی تھی(ب) حضورۖ نفاس کے وقت کی نماز قضا کرنے کا حکم نہیں دیتے تھے (ج) حضورۖ نے نفاس کا وقت چالیس دن متعین کیا ۔مگر یہ کہ اس سے پہلے طہر دیکھ لے (تو پہلے بھی پاک ہو جائے گی)