( باب قیام شہر رمضان)
]٣٩٦[(١) یستحب ان یجتمع الناس فی شہر رمضان بعد العشاء فیصلی بھم امامھم
( باب قیام شہر رمضان )
ضروری نوٹ قیام رمضان سے مراد یہاں تہجد نہیں ہے بلکہ تراویح ہے۔ مسلم شریف میں 'باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح' باب باندھا ہے کہ قیام رمضان وہ تروایح ہے۔
]٣٩٦[(١) مستحب یہ ہے کہ لوگ رمضان کے مہینہ میں عشا کے بعد جمع ہوں اور امام ان کو پانچ ترویحہ پڑھائے۔اور ہر ترویحہ میں دو سلام ہوں تشریح ہر ترویحہ میں دو مرتبہ سلام پھیریںگے۔دو رکعت اور دو رکعت چار رکعتیں ہوںگی۔تو گویا کہ ہر ترویحہ میں چار رکعتیں ہوئیں تو پانچ ترویحہ میں بیس رکعتیں ہوئیں۔
وجہ تراویح پڑھنے کی دلیل یہ حدیث ہے (١)ان عائشة اخبرتہ ان رسول اللہ ۖ خرج لیلة من جوف اللیل فصلی فی المسجد وصلی رجال بصلا تہ فاصبح الناس فتحدثوا فاجتمع اکثر منھم فصلی فصلوا معہ فاصبح الناس فتحدثوا فکثر اھل المسجد من اللیلة الثالثة فخرج رسول اللہ فصلی بصلوتہ فلما کانت اللیلة الرابعة عجز المسجد عن اھلہ حتی خرج لصلوة الصبح فلما قضی الفجر اقبل علی الناس فتشھد ثم قال اما بعد ! فانہ لم یخف علیّ مکانکم لکنی خشیت ان تفرض علیکم فتعجزوا عنھا فتوفی رسول اللہ والامر علی ذلک (الف) (بخاری شریف ، باب فضل من قام رمضان ص ٢٦٩ نمبر ٢٠١٢ مسلم شریف ،باب الترغیب فی قیام رمضان وھو التراویح ص ٢٥٩ نمبر ٧٦١ ١٧٨٤ ابو داؤد شریف ، کتاب تفریع ابواب شہر رمضان باب فی قیام شہر رمضان ص ٢٠٢ نمبر ١٣٧٣)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور تراویح کے لئے رمضان میں تین راتیں کھڑے ہوئے تھے اور لوگوں کو تراویح پڑھائی تھی۔البتہ ہمیشہ اس لئے نہیں پڑھائی کہ کہیں فرض نہ ہو جائے۔
بیس رکعت تراویح کی دلیل یہ حدیث ہے۔عن ابن عباس قال کان النبی ۖ یصلی فی شہر رمضان فی غیر جماعة بعشرین رکعة والوتر (ب) (سنن للبیھقی، باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان ج ثانی ص ٦٨٩،نمبر٤٦١٥) (٢) ان عمر بن خطاب امر رجلا یصلی بھم عشرین رکعة (ج)(مصنف ابن ابی شیبة،٦٧٧ کم یصلی فی رمضان من رکعة ،ج ثانی، ص
حاشیہ : (الف)حضرت عائشہ نے خبر دی کہ حضورۖ ایک رات درمیان رات میں نکلے تو مسجد میں نماز پڑھائی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی ،صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسری رات اس سے زیادہ جمع ہو گئے تو آپۖ نے نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپۖ کے ساتھ نماز پڑھی۔صبح ہوئی تو لوگ باتیں کرنے لگے۔ تو مسجد والے تیسری رات زیادہ ہو گئے تو حضورۖ نکلے اور ان کو نماز پڑھائی تو لوگوں نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔پس جب چوتھی رات ہوئی تو مسجد نمازیوں سے ناکافی ہو گئی ۔یہاں تک کہ آپۖ صبح کی نماز کے لئے نکلے۔پس جب فجر کی نماز پڑھی تو لوگوں پر متوجہ ہوئے ۔آپۖ نے تشہد پڑھی پھر فرمایا اما بعد ! تمہارے حرکات مجھ پر پوشیدہ نہیں تھے لیکن میں ڈرتا ہوں کہ تم پر تراویح فرض ہو جائے۔ اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ ۔پھر حضورکا انتقال ہوا اور معاملہ ایسا ہی تھا(ب) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضورۖ رمضان کے مہینہ میں بغیر جماعت کے بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے(ج) حضرت عمر نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعتیں پڑھائے۔