( باب زکوة العروض)
]٤٩٧[(١)الزکوة واجبة فی عروض التجارة کائنة ما کانت اذا بلغت قیمتھا نصابا من الورق او الذھب]٤٩٨[ (٢) یقومھا بما ھو انفع للفقراء والمساکین منھا]٤٩٩[ (٣) واذا کان النصاب کاملا فی طرفی الحول فنقصانہ فیما بین ذلک لا یسقط الزکوة
٢٣٢،نمبر٧٥٣٥)
( باب زکوة العروض )
]٤٩٧[(١) زکوة واجب ہے تجارت کے سامان میں جو سامان بھی ہو،جب کہ پہنچ جائے چاندی یا سونے کے نصاب کو۔
تشریح تجارت کا کوئی بھی سامان ہو اس کی قیمت لگائی جائے گی،چاہے سونے سے اس کی قیمت لگائے یا چاندی سے اس کی قیمت لگائے۔ اگر یہ قیمت سونے یا چاندی کے نصاب کے برابر ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوة واجب ہوگی۔
وجہ حدیث میں ہے عن سمرة بن جندب قال اما بعد ! فان رسول اللہ ۖ کان یأمرنا ان نخرج الصدقة من الذی نعد للبیع (الف) (ابو داؤد شریف ، باب العروض اذا کانت للتجارة ص ٢٢٥ نمبر ١٥٦٢) وفی دار قطنی عن سمرة بن جندب ... وکان یأمرنا ان نخرج من الرقیق الذی یعد للبیع (ب) (دار قطنی ٨ ،باب زکوة مال التجارة و سقوطھا عن الخیل والرقیق ج ثانی ص ١١١ نمبر ٢٠٠٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مال تجارت میں زکوة واجب ہے لیکن جو سامان تجارت کے لئے نہ ہو اس میں زکوة واجب نہیں ہے۔
]٤٩٨[(٢)سامان تجارت کی قیمت لگائی جائے گی اس چیز سے جو فقراء اور مساکین کے لئے زیادہ نفع بخش ہو۔
تشریح سونا یا چاندی جو فقراء اور مساکین کے لئے زیادہ نفع بخش ہو اس سے سامان تجارت کی قیمت لگائی جائے گی ۔ اور وہ قیمت نصاب تک پہنچ جائے تو اس کی زکوة واجب ہوگی ۔
وجہ کسی چیز کی قیمت لگا کر زکوة دینے کی دلیل پہلے گزر چکی ہے۔(بخاری شریف، باب العروض فی الزکوة ص ١٩٤ نمبر ١٤٤٨ ابو داؤد شریف، باب زکوة السائمة ص ٢٢٥ نمبر ١٥٧٢١٥٦٧)
]٤٩٩[(٣)اگر نصاب سال کے دونوں کناروں میںکامل ہو تو سال کے درمیان نقصان ہونا زکوة ساقط نہیں کرتا۔
تشریح مثلا رمضان میں کسی مال کا مکمل نصاب ہے اور محرم میں نصاب سے کم ہوگیا پھر رمضان میں نصاب مکمل ہو گیا تو زکوة واجب ہوگی۔ ہاں اگر درمیان سال میں مکمل ہی نصاب کا مال ختم ہو گیا تو چونکہ بالکل جڑ سے مال نہیں رہا اس لئے اب جب سے نصاب ہوگا اس وقت سے زکوة کا
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے)نگرانی کرتی تھی جو یتیم تھیںاور ان کی گود میں تھیں۔ان کے پاس زیورات تھے تو حضرت عائشہ اس کی زکوة نہیں نکالتی تھی (الف) آپ ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم زکوة اس چیز کی نکالیں جو بیع کے لئے تیار کی گئی ہو (ب) سمرہ بن جندب فرماتے ہیں ... آپۖ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اس غلام کی زکوة نکالیں جو بیع کے لئے تیار کیا گیا ہو یعنی تجارت کے لئے۔