(باب صلوة المسافر)
]٣٢٨[(١) السفر الذی یتغیر بہ الاحکام ان یقصد الانسان موضعا بینہ و بین المقصد
( باب صلوة المسافر )
ضروری نوٹ آدمی سفر میں چلا جائے تو اس کو مسافر کہتے ہیں۔سفر کی حالت میں آدمی آدھی نماز پڑھے اس کی دلیل یہ حدیث ہے سمع ابن عمر یقول صحبت رسول اللہ فکان لایزید فی السفر علی رکعتین وابا بکر و عمر و عثمان کذلک (الف) (بخاری شریف ، باب من لم یتطوع فی السفر دبر الصلوات ص ١٤٩ نمبر ١١٠٢ مسلم شریف ، باب صلوة المسافرین وقصرھا ص ٢٤٢ نمبر ٦٨٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ اور صحابہ نے سفر میں دو رکعت سے زیادہ نماز نہیں پڑھی۔
]٣٢٨[(١)جس سفرسے احکام بدل جاتے ہیں یہ ہے کہ انسان ایسی جگہ کا ارادہ کرے کہ اس کے درمیان اور اس کے مقصد کے درمیان تین دن کا سفر ہو اونٹ کی چال سے یا قدم کی چال سے اور نہیں اعتبار ہے اس میں پانی میں چلنے کا۔
تشریح جس مقام سے جس مقام تک جانا ہے وہاں کا سفر تین دن کا راستہ ہو۔ درمیانی چال سے کہ صبح سے زوال تک چلے۔اور اونٹ کی چال اور انسان کی پیدل چال کا اعتبار ہے۔کیونکہ انسان عام طور پر اسی رفتار سے چلتا ہے۔ اس لئے شریعت نے اسی کی چال کا اعتبار کیا ہے۔ اس سے تیز رفتار کی چال کا اعتبار نہیں کیا۔کیونکہ شریعت انسان کی عمومی حالت کا اعتبار کرتی ہے۔
نوٹ آدمی عموما ایک دن میں اوسط چال سے صبح سے دو پہر تک میں سولہ (١٦) میل چل سکتا ہے۔اس اعتبار سے تین دن میں اڑتالیس (٤٨)میل ہوتے ہیں۔اور حنفیوں کے یہاں اڑتالیس میل اسی حساب سے مشہور ہے۔
وجہ تین دن کے سفر کا اعتبار اس حدیث سے ہے عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ لا یحل لامرأة تؤمن باللہ والیوم الآخر ان تسافر سفرا یکون ثلاثہ ایام فصاعدا الا و معھا ابوھا او ابنھا او زوجھا او اخوھا او ذومحرم منھا (ب) ( مسلم شریف ، باب سفر المرأة مع محرم الی حج و غیرہ ص ٤٣٤ ابواب الحج نمبر ١٣٤٠ بخاری شریف ، باب کم اقام النبی فی حجتہ ص ١٤٧ ،ابواب تقصیر الصلوة نمبر ١٠٨٨ ) اس حدیث میں جس مسافت کو سفر قرار دیا ہے وہ تین دن کی مسافت ہے۔ اس لئے تین دن کی مسافت پر نماز کے قصر کا حکم لگایا جائے گا (٢) موزے پر مسح میں بھی تین دن کے سفر کو سفر قرار دینے کا اشارہ ملتا ہے۔ حدیث یہ ہے قال اتیت عائشة اسألھا عن المسح علی الخفین ... فقال جعل رسول اللہ ۖ ثلاثة ایام ولیالیھن للمسافر ویوما ولیلة للمقیم (ج) (مسلم شریف ، باب التوقیت فی المسح علی الخفین ص ١٣٥ نمبر ٢٧٦ ابو داؤد شریف ، باب التوقیت فی المسح ص ٢٣ نمبر ١٥٧ ) اس حدیث سے
حاشیہ : (الف) حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ میں حضورۖ کے ساتھ رہا وہ سفر میں دو رکعت سے زیادہ نہیں کرتے۔اور ابوبکر، عمر اور حضرت عثمان بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے(ب) آپۖ نے فرمایا کسی عورت کے لئے حلال نہیں جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ وہ سفر کرے ایسا سفر جو تین دن یا اس سے زیادہ کا ہو مگر اس کے ساتھ اس کا باپ ، یا اس کا بیٹا یا اس کا شوہر یا اس کا بھائی یا اس کا ذی محرم ہو (ج)میں حضرت عائشہ کے پاس آیا مسح علی الخفین کے بارے میں پوچھنے کے لئے ... حضرت علی نے فرمایا کہ حضورۖ نے تین دن تین راتیں مسافر کے لئے اور ایک دن اور ایک رات مقیم کے لئے متعین کیا۔