( باب الصلوة فی الکعبة)
]٤٤٦[(١) الصلوة فی الکعبة جائزة فرضھا ونفلھا ]٤٤٧[(٢) فان صلی الامام فیھا بجماعة فجعل بعضھم ظھرھ الی ظھر الامام جاز ]٤٤٨[(٣) ومن جعل منھم وجھہ الی وجہ الامام طاز ویکرہ]٤٤٩[(٤) ومن جعل منہم ظھرہ الی وجہ الامام لم تجز صلوتہ
( باب الصلوة فی الکعبة )
ضروری نوٹ بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیت اللہ کا کچھ نہ کچھ حصہ سامنے ہوگا جو قبلہ ہو جائے گا۔ اور قبلہ بننے کے لئے اتنا کافی ہے۔باقی دلائل آگے آرہے ہیں۔
]٤٤٦[(١) کعبہ میں نماز جائز ہے،فرض بھی اور نفل بھی ۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابن عمر قال دخل النبی ۖ البیت واسامة بن زید و عثمان بن طلحہ و بلال فاطال ثم خرج وکنت اول الناس دخل علی اثرہ فسألت بلالا این صلی فقال بین العمودین المقدمین (الف) (بخاری شریف ، باب الصلوة بین السواری فی غیر جماعة ،کتاب الصلوة ،ص ٧٢ نمبر ٥٠٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنا جائز ہے۔
]٤٤٧[(٢) اگر امام نے بیت اللہ میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھی اور بعض نے اپنی پیٹھ امام کی پیٹھ کی طرف کی تو نماز جائز ہو جائے گی۔
وجہ مقتدی نے اپنی پیٹھ امام کی پیٹھ کی طرف کر لی تو مقتدی امام کے آگے نہیں ہوا بلکہ امام کی پیچھے ہی رہا،اور مقتدی کے سامنے بھی قبلہ موجود ہے اس لئے نماز ہو جائے گی۔
]٤٤٨[(٣) اور جس مقتدی نے اپنا چہرہ امام کے چہرہ کی طرف کیا تو بھی نماز جائز ہوگی لیکن مکروہ ہو گی۔
وجہ اس صورت میں بھی امام کے چہرے کی طرف مقتدی کی پیٹھ نہیں ہوئی اس لئے نماز جائز ہو جائے گی۔لیکن امام کے چہرہ کی طرف چہرہ کرنا اچھا نہیں ہے اس لئے مکروہ ہے۔
]٤٤٩[(٤) مقتدی میں سے جس نے اپنی پیٹھ امام کے چہرہ کی طرف کی اس کی نماز جائز نہیں ہو گی۔
وجہ امام کے چہرہ کی طرف مقتدی کی پیٹھ ہو گئی تو مقتدی امام کے بالکل آگے ہو گیا اور پہلے قاعدہ گزر گیا ہے کہ مقتدی امام کے آگے ہو جائے تو مقتدی کی نماز نہیں ہوگی۔یہ مسئلہ قاعدہ پر مستنبط ہے ۔
نوٹ اوپر کی چار شکلیں بیت اللہ کے اندر نماز پڑھنے کی ہے۔
حاشیہ : (الف) آپۖ بیت اللہ میں داخل ہوئے اور اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ اور بلال داخل ہوئے پھر نکلے۔تو میں سب سے پہلے ان کے پیچھے داخل ہوا اور حضرت بلال سے پوچھا کہ کہاں نماز پڑھی تو فرمایا کہ اگلے دو ستونوں کے درمیان۔