( باب الفوات )
]٧٩١[(١) ومن احرم بالحج ففاتہ الوقوف بعرفة حتی طلع الفجر من یوم النحر فقد فاتہ الحج]٧٩٢[ (٢) وعلیہ ان یطوف ویسعی ویتحلل ویقضی الحج من قابل ولا دم علیہ
( باب الفوات )
ضروری نوٹ حج کے فوت ہونے کو فوات کہتے ہیں۔
]٧٩١[(١) جس نے حج کا احرام باندھا اور اس کا وقوف عرفہ فوت ہو گیا یہاں تک کہ دسویں ذی الحجہ کی فجر طلوع ہو گئی پس اس کا حج فوت ہوگیا تشریح دسویں ذی الحجہ کی فجر طلوع ہونے سے پہلے پہلے وقوف عرفہ کرلینا چاہئے اس سے حج ہو جائیگا۔اب وہ وہ طلوع فجر سے پہلے فوت ہو گیا تو اس کا حج فوت ہوگیا، وقوف عرفہ فرض ہونے کی دلیل یہ آیت ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس (آیت ١٩٩ سورة البقرة٢) حدیث میں ہے عن عروة بن مضرس ... فقال رسول اللہ من شھد صلوتنا ھذہ ووقف معنا حتی یدفع وقد وقف بعرفة قبل ذلک لیلا او نھارا فقد تم حجہ (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی من ادرک الامام بجمع فقد ادرک الحج ص ١٧٨ نمبر ٨٩١ابو داؤد شریف، باب من لم یدرک عرفة،ص ٢٧٦، نمبر ١٩٤٩)
]٧٩٢[(٢)اور اس پر لازم ہے کہ طواف کرے اور سعی کرے اور حلال ہو جائے اور اگلے سال حج کرے اور اس پر حج چھوڑنے کا دم نہیں ہے تشریح قاعدہ یہ ہے کہ جس سے حج فوت ہو جائے تو اگر وہ اعمال عمرہ یعنی طواف اور سعی کر سکتا ہو تو وہ کرکے حلال ہو جائے اور اگلے سال حج کرے ۔اور چونکہ عمرہ کر لیا تو اب اس پر ہدی ذبح کرنا لازم نہیں ہے۔البتہ اگر عمرہ نہ کر پاتا تو ہدی لازم ہوتی ۔
وجہ ان دونوں مسئلوں کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن عمر ان رسول اللہ ۖ قال من وقف بعرفات بلیل فقد ادرک الحج ومن فاتہ عرفات بلیل فقد فاتہ الحج فلیحل بعمرة وعلیہ الحج من قابل (الف) (دار قطنی، کتاب الحج ج ثانی ص ٢١٢ نمبر ٢٤٩٦) اور دوسری حدیث میں یہ عبارت ہے من ادرک عرفة قبل طلوع الفجر فی یوم النحر فقد تم حجہ(ب) (دار قطنی ، کتاب الحج، ج ثانی، ص ٢١٢ نمبر ٢٤٩٤سنن للبیھقی ، باب ادرک الحج بادراک عرفة قبل طلوع الفجر من یوم النحر ج خامس ص ٢٨٢، نمبر ٩٨١٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی کا وقوف عرفہ چھوٹ گیا تو حج فوت ہو گیا اب اس کو اعمال عمرہ کرکے حلال ہونا چاہئے۔اس صورت میں اس پر ہدی لازم نہیں ہوگی۔اور عمرہ کرنے پر ہدی لازم نہیں ہوگی کیونکہ مذکورہ حدیث میں ہدی کا تذکرہ نہیں ہے (٢)عمر ابن خطاب کے فیصلے میں یہ الفاظ ہیں ان ھبار بن الاسود جاء یوم النحر وعمر ینحر ...ثم انحر ھدیا ان کان معک ثم احلقوا او قصروا وارجعوا (ج) (سنن للبیھقی، باب ما یفعل من فاتہ الحج، ج خامس، ص٢٨٤،نمبر ٩٨٢٢) اس اثر میں ہے کہ اگر ہدی ہوتو ذبح کرو
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا جو عرفات میں رات میں ٹھہرے تو اس نے حج پا لیا،اور جس سے رات میں عرفات فوت ہو گیا تو اس سے حج فوت ہو گیا ۔پس عمرہ کرکے حلال ہونا چاہئے ۔اور اس پر اگلے سال حج ہے (ب) جس نے دسویںتاریخ کی فجر طلوع ہونے سے پہلے عرفہ پا لیا تو اس کا حج پورا ہو گیا(ج) ہبار بن اسود دسویں ذی الحجہ کو حضرت عمر کے پاس آئے اس حال میں کہ وہ اونٹ نحر کر رہے تھے... پھر ہدی نحر کرو اگر تمہارے پاس ہو،پھر حلق کراؤ یا قصر کراؤ اور واپس ہو جاؤ۔