( باب زکوة الذھب )
]٤٩٤[(١) لیس فیما دون عشرین مثقالا من الذھب صدقة فاذا کانت عشرین مثقالا و حال علیھا الحول ففیھا نصف مثقال]٤٩٥[ (٢) ثم فی کل اربعة مثاقیل قیراطان ولیس فیما دون اربعة مثاقیل صدقة عند ابی حنیفة وقالا مازاد علی العشرین فزکوتہ بحسابھا]٤٩٦[(٣) وفی تبر الذھب والفضة وحلیھما والآنیة منھما زکوة۔
( باب زکوة الذھب )
]٤٩٤[(١)بیس مثقال سونے سے کم میں زکوة نہیں ہے ،پس جب کہ بیس مثقال ہو اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں آدھا مثقال زکوة ہے وجہ حدیث میں ہے عن عاصم بن ضمزة والحارث الاعور عن علی عن النبی ۖ ... ولیس علیک شیء یعنی فی الذھب حتی تکون لک عشرون دینار فاذا کانت لک عشرون دینارا و حال علیھا الحول ففیھا نصف دینار فمازاد فبحساب ذلک (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٨ نمبر ١٥٧٣ سنن للبیھقی ،باب نصاب الذھب وقدر الواجب فیہ، ج رابع، ص ٢٣٢،نمبر٧٥٣٤) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیس مثقال سونا ہو تو اس میں سے آدھا مثقال واجب ہوگاجو چالیسواں حصہ ہوا۔
]٤٩٥[(٢) پھر ہر چار مثقال میں دو قیراط زکوة ہے اور چار مثقال سے کم میں زکوة نہیں ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک،اور صاحبین نے فرمایا بیس مثقال پر جو کچھ زیادہ ہو تو اس کی زکوة اس کے حساب سے ہے۔
تشریح اوپر گزر چکا ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک بیس مثقال کے بعد جب تک چار مثقال سونا نہ ہو جائے کچھ لازم نہیں ہوگا۔چار مثقال میں دو قیراط سونا لازم ہوگا۔اور صاحبین کے نزدیک بیس مثقال سونے سے جتنا بھی زیادہ ہوگا اس میں اسی حساب سے زکوة واجب ہوتی چلی جائے گی۔ دونوں کے دلائل باب زکوة الفضة میںگزر چکے ہیں۔
]٤٩٦[(٣) سونے اور چاندی کے ڈلے،ان دونوں کے زیور اور ان دونوں کے برتن میںزکوة واجب ہے۔
تشریح سونا اور چاندی کسی حال میں ہو، چاہے درہم اور دنانیر کی شکل میں ہو،ڈلے کی شکل میں ہو یا برتن اور زیور کی شکل میں ہو ہر حال میں حنفیہ کے نزدیک زکوة واجب ہے۔ اس کی دلیل باب زکوة الفضة کے شروع میں گزر چکی ہے۔
فائدہ امام شافعی کے ایک قول میں زیور میں زکوة نہیں ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے ان عائشة زوج النبی ۖ تلی بنات اخیھا یتامی فی حجرھا لھن الحلی فلا تخرج منہ الزکوة (الف) (سنن للبیھقی باب من قال لا زکوة فی الحلی ج رابع ص
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا ... اور تم پر کچھ نہیں ہے یعنی سونے میں یہاں تک کہ تمہارے لئے بیس دینار ہو جائے ، پس جب کہ تمہارے لئے بیس دینار ہو جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار ہے۔پس جو زیادہ ہو تو اس کے حساب سے ہوگا(ب) حضرت عائشہ اپنے بھائی کی بیٹیوں کی (باقی اگلے صفحہ پر)