(باب الاذان)
]١٤٧[(١)الاذان سنة للصلوات الخمس والجمعة دون ماسواھا۔]١٤٨[ (٢) ولا
( باب الاذان )
ضروری نوٹ الاذان کے معنی اعلان کے ہیں،اذان میں نماز کا اعلان کیا جاتا ہے اس لئے اس کو اذان کہتے ہیں۔اس کا ثبوت اس آیت سے ہے یایھا الذین آمنوا اذا نودی للصلوة من یوم الجمعة فاسعوا الی ذکر اللہ (الف)(آیت ٩ سورة الجمعة ٦٢)
]١٤٧[(١) اذان سنت ہے پانچوں نمازوں کے لئے اور جمعہ کے لئے نہ اس کے علاوہ کے لئے۔
تشریح پانچوں نمازوں اور جمعہ کے علاوہ اذان سنت نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ (١) وتر (٢) عیدین (٣) جنازہ (٤) کسوف(٥) استسقاء (٦) تراویح (٧) سنن زوائد کے لئے اذان دینا سنت نہیں ہے۔اذان سنت ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے ان ابن عمرکان یقول کان المسلمون حین قدموا المدینة یجتمعون فیتحینون الصلوة لیس ینادی لھا فتکلموا یوما فی ذلک فقال بعضھم اتخذوا ناقوسا مثل ناقوس النصاری وقال بعضھم بل بوقا مثل قرن الیھود فقال عمر اولا تبعثون رجلا ینادی بالصلوة؟ فقال رسول اللہ یا بلال! قم فناد بالصلوة (ب) بخاری شریف ، باب بدأ الاذان ص ٨٥ نمبر ٦٠٤ مسلم شریف ،باب بداء الاذان ص ١٦٤ نمبر ٣٧٧)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز کے لئے اذان دینا سنت ہے۔
]١٤٨[(٢) اذان میں ترجیع نہیں ہے ۔
تشریح ترجیع کا مطلب یہ ہے کہ اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدا رسول اللہ کو دو دو مرتبہ آہستہ آہستہ کہے پھر ان دونوں کلمات کو دو دو مرتبہ زور زور سے کہے۔ تو ان دونوں کلمات کو دو بارہ لوٹانا ہے اس لئے اس کو ترجیع کہتے ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک اذان میں ترجیع نہیں ہے وجہ (١) عبد اللہ بن زید جس نے فرشتے کو خواب میں اذان دیتے ہوئے دیکھا اورحجرت بلال کو اذان کے کلمات کی تلقین کی اس میں ترجیع نہیں ہے۔ عن عبد اللہ بن زید قال کان اذان رسول اللہ ۖ شفعا شفعا فی الاذان والاقامة (ج) (ترمذی شریف، باب ماجاء فی ان الاقامة مثنی مثنی ص ٤٨ نمبر ١٩٤ ابو داؤد شریف، باب کیف الاذان ص ٧٨ نمبر ٤٩٩) حضرت ابو محذورة کو آپۖ نے آواز بلند کروانے کے لئے دو بارہ شہادتین پڑھوایا تو انہوں نے سمجھا کہ ترجیع اصل ہے ۔حالانکہ دو بور شہادتین پڑھوانا آواز بلند کروانے کے لئے تھا فائدہ امام شافعی کے نزدیک اذان میں ترجیع ہے ۔ان کی دلیل حضرت ابو محذورة کی لمبی حدیث ہے۔ یہ حدیث مسلم
حاشیہ : (الف)اے ایمان والو جمعہ کے دن نماز کے لئے جب اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ کر جاؤ(ب) حضرت عبد اللہ بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ مسلمان جب مدینہ آئے تو جمع ہوتے تھے اور نماز کا انتظار کرتے تھے ۔ان کے لئے اذان نہیں دی جاتی تھی۔لوگوں نے اس بارے میں ایک دن بات کی تو بعض نے کہا کہ ناقوس رکھ لو جیسے کے نصاری کے ناقوس ہوتے ہیں۔بعض نے کہا بلکہ نرسنگھا لے لو یہود کے نرسنگھا کی طرح تو حضرت عمر نے فرمایا ایک آدمی کو نہ بھیجے جو نماز کے لئے آواز دے۔ تو آپۖ نے فرمایا اے بلال کھڑے ہو کر نماز کی اذان دو (ج) عبد اللہ بن زید فرماتے ہیں کہ حضور کی اذان شفعہ شفعہ تھی۔اذان میں بھی اور اقامت میں بھی۔