Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 1 - یونیکوڈ

347 - 493
( باب صدقة الفطر)
]٥٣٧[(١) صدقة الفطر واجبة علی الحر المسلم اذا کان مالکا لمقدار النصاب فاضلا 

(  باب صدقة الفطر  )
ضروری نوٹ  عید کے دن جو صدقہ دیاجاتا ہے اس کو صدقة الفطر کہتے ہیں۔ چونکہ پورے رمضان روزے رکھ کروہ افطار کا دن ہوتا ہے اس لئے اس کو صدقة الفطر کہتے ہیں۔اس کی دلیل آگے آئے گی۔
]٥٣٧[(١)صدقة الفطر واجب ہے ہر آزاد ،مسلمان پر جب کہ نصاب کی مقدار کا مالک ہو اور اپنے رہنے کے مکان اور اپنے کپڑے اور اپنے سامان گھوڑے ، ہتھیار اور خدمت کے غلام سے زیادہ ہو۔  
تشریح  حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو تب ہی صدقة الفطر واجب ہوتا ہے۔ اور اوپر کی ساری چیزیں حاجت اصلیہ کی ہیں۔ مثلا رہنے کے لئے ایک مکان،روزانہ پہننے کے کپڑے، گھر کا فرنیچر، جہاد کے لئے گھوڑے،ہتھیار اور خدمت کے غلام یہ چیزیں انسان کے لئے ضروریات زندگی میں سے ہیں۔ اس لئے ان چیزوں سے فارغ ہو کر اور سال بھر تک کھانے پینے سے فارغ ہوکر مقدار نصاب کے برابر مال کا مالک ہو تب صدقةالفطر واجب ہوتا ہے۔  
وجہ  غنی کی دلیل پہلے گزر چکی ہے تؤخذ من اغنیائھم وترد علی فقرائھم (الف) (بخاری شریف ، باب اخذ الصدقة من الاغنیاء وترد فی الفقراء حیث ما کانوا ص ٢٠٣ نمبر ١٤٩٦) حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوة یا صدقہ مالداروں سے لیا جائے گا۔ اور مالدار اس کو کہتے ہیں کہ حاجت اصلیہ سے مقدار نصاب مال زیادہ ہو ۔حدیث میں ہے وقال النبی ۖ لا صدقة الا عن ظھر غنی (بخاری شریف ، باب تاویل قولہ من بعد وصیة یوصی بھا او دین ،کتاب الوصایا ص ٣٨٤ نمبر ٢٧٥٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجت اصلیہ سے فارغ ہونے کے بعد زکوة یا صدقہ الفطر ادا کرے(٢) حاجت اصلیہ کی تفصیل کا پتہ اس اثر سے ہوتا ہے  عن سعید بن جبیر قال یعطی من الزکوة من لہ االدار والخادم والفرس (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٧٥ من لہ دار و خادم یعطی من الزکوة ج ثانی ص ٤٠٢،نمبر١٠٤١٥)اس اثر سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس رہنے کا گھر ہو اور خدمت کا غلام ہو اور جہاد کا گھوڑا ہو وہ غنی نہیں ہے۔اگر وہ محتاج ہو تو اس کو زکوة دی جا سکتی ہے۔اس لئے کہ یہ سب چیزیں حاجت اصلیہ میں داخل ہیں۔  
فائدہ  امام شافعی  فرماتے ہیں کہ جو آدمی ایک دن رات کے کھانے سے زیادہ مال رکھے وہ صدقة الفطر ادا کرے۔  
وجہ  ان کی دلیل یہ حدیث ہے  عن ابن ابی صعیر عن ابیہ قال قال رسول اللہ ادوا صدقةالفطر صاعا من بر او قمح عن کل رأس صغیر او کبیر حر او عبد ذکر او انثی اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیرکم فیرد اللہ علیہ اکثر بما اعطاہ (ج) (دار قطنی، کتاب زکوة الفطر، ج ثانی ص ١٢٨ ١٢٩ نمبر ٢٠٨٨ سنن للبیھقی ، باب من قال بوجوبھا علی الغنی والفقیر ج رابع ص 

حاشیہ  :  (الف) ان کے مالداروں سے زکوة لی جائے گی اور ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی(ب) سعید بن جبیر نے فرمایا کہ زکوة دی جائے گی جس کو گھر ہو، خادم ہو اور گھوڑا ہو(ج) آپۖ نے فرمایا صدقة الفطر ادا کرو ایک صاع گیہوں سے چھوٹے ، بڑے، آزاد ہو یا غلام، مذکر اور مؤنث کی جانب سے، بہر(باقی اگلے صفحہ پر) 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ( کتاب الطھارة ) 35 1
3 ( باب التیمم ) 73 2
4 (باب المسح علی الخفین) 82 2
5 (باب الحیض) 90 2
6 (باب الانجاس) 101 2
7 (کتاب الصلوة) 113 1
8 (باب الاذان) 121 7
9 (باب شروط الصلوة التی تتقدمھا) 127 7
10 (باب صفة الصلوة) 134 7
11 (باب قضاء الفوائت) 192 7
12 (باب الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة) 195 7
13 (باب النوافل) 200 7
14 (باب سجود السھو) 209 7
15 (باب صلوة المریض) 216 7
16 (باب سجود التلاوة) 221 7
17 (باب صلوة المسافر) 226 7
18 (باب صلوة الجمعة) 238 7
19 (باب صلوة العدین ) 250 7
20 ( باب صلوة الکسوف) 259 7
21 ( باب صلوة الاستسقائ) 263 7
22 ( باب قیام شہر رمضان) 265 7
23 (باب صلوة الخوف) 268 7
24 ( باب الجنائز) 273 7
25 ( باب الشہید) 291 7
26 ( باب الصلوة فی الکعبة) 295 7
27 ( کتاب الزکوة) 298 1
28 (باب زکوة الابل ) 303 27
29 (باب صدقة البقر ) 308 27
30 ( باب صدقة الغنم) 312 27
31 ( باب زکوة الخیل) 314 27
32 (باب زکوة الفضة) 322 27
33 ( باب زکوة الذھب ) 325 27
34 ( باب زکوة العروض) 326 27
35 ( باب زکوة الزروع والثمار ) 328 27
36 (باب من یجوز دفع الصدقة الیہ ومن لایجوز) 337 27
37 ( باب صدقة الفطر) 347 27
38 ( کتاب الصوم) 354 1
39 ( باب الاعتکاف) 378 38
40 ( کتاب الحج ) 383 1
41 ( باب القران ) 426 40
42 ( باب التمتع ) 433 40
43 ( باب الجنایات ) 442 40
44 ( باب الاحصار ) 471 40
45 ( باب الفوات ) 478 40
46 ( باب الھدی ) 481 40
Flag Counter