( باب صدقة الفطر)
]٥٣٧[(١) صدقة الفطر واجبة علی الحر المسلم اذا کان مالکا لمقدار النصاب فاضلا
( باب صدقة الفطر )
ضروری نوٹ عید کے دن جو صدقہ دیاجاتا ہے اس کو صدقة الفطر کہتے ہیں۔ چونکہ پورے رمضان روزے رکھ کروہ افطار کا دن ہوتا ہے اس لئے اس کو صدقة الفطر کہتے ہیں۔اس کی دلیل آگے آئے گی۔
]٥٣٧[(١)صدقة الفطر واجب ہے ہر آزاد ،مسلمان پر جب کہ نصاب کی مقدار کا مالک ہو اور اپنے رہنے کے مکان اور اپنے کپڑے اور اپنے سامان گھوڑے ، ہتھیار اور خدمت کے غلام سے زیادہ ہو۔
تشریح حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو تب ہی صدقة الفطر واجب ہوتا ہے۔ اور اوپر کی ساری چیزیں حاجت اصلیہ کی ہیں۔ مثلا رہنے کے لئے ایک مکان،روزانہ پہننے کے کپڑے، گھر کا فرنیچر، جہاد کے لئے گھوڑے،ہتھیار اور خدمت کے غلام یہ چیزیں انسان کے لئے ضروریات زندگی میں سے ہیں۔ اس لئے ان چیزوں سے فارغ ہو کر اور سال بھر تک کھانے پینے سے فارغ ہوکر مقدار نصاب کے برابر مال کا مالک ہو تب صدقةالفطر واجب ہوتا ہے۔
وجہ غنی کی دلیل پہلے گزر چکی ہے تؤخذ من اغنیائھم وترد علی فقرائھم (الف) (بخاری شریف ، باب اخذ الصدقة من الاغنیاء وترد فی الفقراء حیث ما کانوا ص ٢٠٣ نمبر ١٤٩٦) حدیث سے معلوم ہوا کہ زکوة یا صدقہ مالداروں سے لیا جائے گا۔ اور مالدار اس کو کہتے ہیں کہ حاجت اصلیہ سے مقدار نصاب مال زیادہ ہو ۔حدیث میں ہے وقال النبی ۖ لا صدقة الا عن ظھر غنی (بخاری شریف ، باب تاویل قولہ من بعد وصیة یوصی بھا او دین ،کتاب الوصایا ص ٣٨٤ نمبر ٢٧٥٠) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجت اصلیہ سے فارغ ہونے کے بعد زکوة یا صدقہ الفطر ادا کرے(٢) حاجت اصلیہ کی تفصیل کا پتہ اس اثر سے ہوتا ہے عن سعید بن جبیر قال یعطی من الزکوة من لہ االدار والخادم والفرس (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٧٥ من لہ دار و خادم یعطی من الزکوة ج ثانی ص ٤٠٢،نمبر١٠٤١٥)اس اثر سے معلوم ہوا کہ جس کے پاس رہنے کا گھر ہو اور خدمت کا غلام ہو اور جہاد کا گھوڑا ہو وہ غنی نہیں ہے۔اگر وہ محتاج ہو تو اس کو زکوة دی جا سکتی ہے۔اس لئے کہ یہ سب چیزیں حاجت اصلیہ میں داخل ہیں۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ جو آدمی ایک دن رات کے کھانے سے زیادہ مال رکھے وہ صدقة الفطر ادا کرے۔
وجہ ان کی دلیل یہ حدیث ہے عن ابن ابی صعیر عن ابیہ قال قال رسول اللہ ادوا صدقةالفطر صاعا من بر او قمح عن کل رأس صغیر او کبیر حر او عبد ذکر او انثی اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیرکم فیرد اللہ علیہ اکثر بما اعطاہ (ج) (دار قطنی، کتاب زکوة الفطر، ج ثانی ص ١٢٨ ١٢٩ نمبر ٢٠٨٨ سنن للبیھقی ، باب من قال بوجوبھا علی الغنی والفقیر ج رابع ص
حاشیہ : (الف) ان کے مالداروں سے زکوة لی جائے گی اور ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی(ب) سعید بن جبیر نے فرمایا کہ زکوة دی جائے گی جس کو گھر ہو، خادم ہو اور گھوڑا ہو(ج) آپۖ نے فرمایا صدقة الفطر ادا کرو ایک صاع گیہوں سے چھوٹے ، بڑے، آزاد ہو یا غلام، مذکر اور مؤنث کی جانب سے، بہر(باقی اگلے صفحہ پر)