( باب صلوة الاستسقائ)
]٣٩٢[(١) قال ابو حنیفة لیس فی الاستسقاء صلوة مسنونة بالجماعةفان صلی الناس وحدانا جاز وانما الاستسقاء الدعاء والاستغفار ]٣٩٣[(٢) وقال ابو یوسف و محمد
( باب صلوة الاستسقاء )
ضروری نوٹ استسقاء کے معنی ہیں بارش طلب کرنا،ملک میں قحط سالی ہو جائے اور بارش نہ ہو تو استسقاء کیا جا سکتا ہے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز پڑھنا کوئی ضروری نہیں ہے۔صرف دعا سے بھی استسقاء ہو سکتا ہے اور نماز بھی پڑھ سکتا ہے۔ اور صاحبین کے نزدیک نماز استسقاء مسنون ہے۔ دونوں کی دلیلیں نیچے آرہی ہیں۔اس کی دلیل یہ آیت بھی ہے فقلت استغفروا ربکم انہ کان غفارا o یرسل السماء علیکم مدرارا o (ب) (آیت ١١١٠ سورۂ نوح١٧) اس آیت میں ہے کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کرو تاکہ اللہ تعالی تم پر خوب بارش برسائے۔اور چونکہ نماز استسقاء میں اپنے گناہوں سے توبہ کرنا ہے اس لئے اس آیت سے استسقاء ثابت ہوتا ہے۔
]٣٩٢[(١)امام ابو حنیفہ نے فرمایا استسقاء میں جماعت کے ساتھ نماز مسنون نہیں ہے۔پس اگر تنہا تنہا نماز پڑھے تو جائز ہے، استسقاء صرف دعا اور استغفار کا نام ہے۔
تشریح آپۖ نے کبھی نماز استسقاء پڑھی ہے اور کبھی صرف جمعہ کے خطبہ کے وقت ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے۔ اس لئے استسقاء دونوں طرح جائز ہے۔صرف نماز ہی پڑھنا مسنون نہیں ہے۔
وجہ آیت اوپر گزری جس میں یہ حکم ہے کہ اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرو تو بارش خوب ہوگی ۔جس سے معلوم ہوا کہ گناہوں سے توبہ کرکے بارش مانگنا استسقاء ہے(٢) حدیث میں ہے کہ استسقاء کے لئے جمعہ کے خظبہ کے وقت آپنے ہاتھ اٹھا کر دعا کی ہے۔اسی سے بارش ہو گئی عن انس بن مالک ان رجلا دخل المسجد یوم الجمعة ورسول اللہ ۖ قائما یخطب ... فرفع رسول اللہ یدیہ قال اللہم اغثنا (الف)(بخاری شریف ، باب الاستسقاء فی خطبة الجمعة غیر مستقبل القبلة ص ١٣٨ نمبر ١٠١٤ مسلم شریف ، کتاب الاستسقاء ص ١٩٣ نمبر ٨٩٧ ابو داؤد شریف ، باب رفع الیدین فی الاستسقاء ص ١٧٣ نمبر ١١٧٥، اس باب کی آخری حدیث ہے) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپۖ نے اس کے لئے مستقل نماز نہیں پڑھی صرف دعا پر اکتفا کیا۔اس لئے امام ابو حنیفہ کے نزدیک نماز ضروری نہیں ،صرف دعا اور استغفار سے بھی استسقاء ہو جائے گا۔اور نماز پڑھ لے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے ،کیونکہ وہ بھی حدیث سے ثابت ہے۔
]٣٩٣[(٢)امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا امام دو رکعت نماز پڑھائیںگے۔اور اس میں قرأت زور سے پڑھیںگے۔
وجہ ان کی دلیل یہ حدیث ہے عن عباد بن تمیم عن عمہ قال خرج النبی ۖ یستسقی فتوجہ الی القبلة یدعو وحول
حاشیہ : (الف) میں نے کہا اپنے رب سے استغفار کرو،وہ بہت معاف کرنے والے ہیں۔تم پر مسلسل بارش برسائے گا(ج) انس بن مالک فرماتے ہیں کہ ایک آدمی جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا اور حضورکھڑے خطبہ دے رہے تھے... آپۖ نے ہاتھ اٹھائے اور فرمایا اللہم اغثنا۔