( باب التمتع )
]٦٩٥[(١) التمتع افضل من الافراد عندنا]٦٩٦[(٢)والمتمتع علی وجھین متمتع یسوق الھدی ومتمتع لا یسوق الھدی ]٦٩٧[(٣) وصفة التمتع ان یبتدأ من المیقات فیحرم بالعمرة ویدخل مکة فیطوف لھا ویسعی ویحلق او یقصر وقد حل من عمرتہ
( باب التمتع )
ضروری نوٹ حج کے مہینے شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی دس تاریخ میں عمرے کا احرام باندھے پھر عمرہ کر کے حلال ہو جائے اور حج کے زمانے میں حج کا احرام باندھ کر حج پورا کرے اس کو تمتع کہتے ہیں۔ اس کی دلیل یہ آیت ہے۔فمن تمتع بالعمرة الی الحج فما استیسر من الھدی (الف) (آیت ١٩٦ سورة البقرة ٢) اس آیت سے تمتع ثابت ہوتا ہے (٢) حجة الوداع میں وہ احادیث ہیں جن میں آپ نے صحابہ کو عمرہ کر کے احرام کھلوایا۔
]٦٩٥[(١) ہمارے نزدیک تمتع افراد سے افضل ہے۔
وجہ تمتع میں دو عبادتیں ایک سفر میں ادا کی جاتی ہیں عمرہ اور حج اس لئے یہ افضل ہوگا (٢) صحابہ کو حجة الوداع میں عمرہ کرکے حلال ہونے کے لئے آپۖ نے فرمایا عن عائشة قالت خرجنا مع النبی ۖ ... فامر النبی ۖ من لم یکن ساق الھدی ان یحل فحل من لم یکن ساق الھدی (ب) ( بخاری شریف ، باب التمتع والاقران والافراد بالحج ص ٢١٢ نمبر ١٥٦١) اس حدیث میں آپۖ نے صحابہ کو عمرہ کرکے حلال ہونے کا حکم دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تمتع افضل ہے ۔
فائدہ امام ابو حنیفہ کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ افراد افضل ہے۔کیونکہ اس میں صرف حج کے لئے سفر ہوتا ہے اور حج کے لئے تلبیہ اور تکبیر کی کثرت ہوتی ہے۔
]٦٩٦[(٢) متمتع کی دو قسمیں ہیں (١) متمتع جو ہدی ہانکے اور دوسرا متمتع جو ہدی نہ ہانکے۔
تشریح قریب کے لوگ میقات سے ہی ہدی لیکر جاتے ہیں تو وہ ہدی ہانکنے والا متمتع ہوا اور جو لوگ ہدی ساتھ نہ لے جائے بلکہ بعد میں ہدی خرید کر ذبح کرے وہ متمتع ہے جو ہدی ساتھ نہ لے جائے۔حضور حجة الوداع میں ہدی ساتھ لیکر تشریف لے گئے تھے۔
]٦٩٧[(٣) تمتع کا طریقہ یہ ہے کہ میقات سے عمرے کا احرام شروع کرے اور مکہ میں داخل ہو۔ پس عمرے کا طواف کرے ،سعی کرے اور حلق یا قصر کرائے اور اپنے عمرے سے حلال ہو جائے۔
تشریح اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔
حاشیہ : (الف) جس نے عمرہ کوحج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا تو جو کچھ ہدی میں سے آسان ہو وہ لازم ہے (ب) حضورۖ نے ان کو حکم دیا جس نے ہدی نہ ہانکی ہو یہ کہ حلال ہو جائے۔تو جس نے ہدی نہ ہانکی تھی وہ حلال ہو گئے۔