( کتاب الزکوة)
]٤٥٢[(١) الزکوة واجبة علی الحر المسلم البالغ العاقل اذا ملک نصابا ملکا تاما و
( کتاب الزکوة )
ضروری نوٹ زکوة کو نماز کے بعد لائے کیوں کہ تقریبا براسی آیتوں میں نماز کے بعد زکوة کا ذکر ہے۔ اس لئے نماز کے ابحاث ختم ہونے کے بعد زکوة کا تذکرہ لائے۔ زکوة کے معنی پاکی ہیں اور چونکہ زکوة دینے سے مال پاک ہوتا ہے اس لئے اس کو زکوة کہتے ہیں۔یا زکوة کے معنی بڑھنا ہیں اور چونکہ زکوة دینے سے مال بڑھتا ہے اس لئے اس کو زکوة کہتے ہیں۔اس کا ثبوت بہت سی آیتوں میں ہے۔مثلا یقیمون الصلوة و یؤتون الزکوة و یطیعون اللہ ورسولہ (الف) (آیت ٧١ سورۂ توبہ) اسی آیت سے زکوة دینا فرض ثابت ہوتا ہے۔
]٤٥٢[(١) زکوة واجب ہے ہر وہ آزاد پر جو مسلمان ہو، بالغ ہو ،عاقل ہو جب کہ نصاب کا پورا مالک ہو، اور اس پر سال گزر گیا ہو،اسی لئے بچے پر، مجنوں پر اور مکاتب پر زکوة نہیں ہے۔
تشریح زکوة عبادت مالیہ ہے۔اس لئے کافر پر زکوة واجب نہیں اس سے جو کچھ لیا جائے گا وہ ٹیکس لیا جائے گا۔چنانچہ زکوة واجب ہونے کے کچھ شرطیں ہیں (١) آزاد ہو ، اس لئے غلام اور مکاتب پر زکاة واجب نہیں ہے۔کیونکہ یہ مال اس کے مولی کا ہے۔ غلام کا نہیں ہے۔چنانچہ حدیث میں ہے عن جابر قال قال رسول اللہ لیس فی مال المکاتب زکوة حتی یعتق (ب) (دار قطنی ١٠، باب لیس فی مال المکاتب زکوة حتی یعتق ج ثانی ص ٩٣ نمبر ١٩٤١ سنن للبیھقی ، باب من قال لیس فی مال العبد زکوة ج رابع ص ١٨٢،نمبر٧٣٤٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مکاتب کے مال میں زکوة نہیں ہے۔کیونکہ وہ آزاد نہیں ہے،دوسری بات یہ ہے کہ مال کا پورا مالک بننا ضروری ہے اور غلام کا مال نہیں ہے اس کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اس کے مولی کا مال ہے ۔دوسری شرط مسلمان ہونا ہے اس کی وجہ گزر چکی۔تیسری شرط بالغ ہونا ہے۔چنانچہ بچے کے مال میں زکوة نہیں ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن علی عن النبی ۖ قال رفع القلم عن ثلثة عن النائم حتی یستیقظ وعن الصبی حتی یحتلم وعن المجنون حتی یعقل (ج) (ابو داؤد شریف ، باب فی المجنون یسرق او یصیب حدا ج ثانی ص ٢٥٦ کتاب الحدود ،نمبر ٤٤٠٣ ابن ماجہ شریف ، باب طلاق المعتوہ والصغیر والنائم ،کتاب الطلاق ص ١٤٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچے کے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں ہے تو زکوة بھی اس کے مال میں واجب نہیں ہوگی ۔اسی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مجنون وہ آدمی ہے جس کی عقل بالکل ختم ہو گئی ہو اس پر بھی زکوة واجب نہیں ہوگی (٢) چنانچہ اثر میں ہے عن ابراھیم قال لیس فی مال الیتیم زکوة حتی یحتلم (د) (مصنف ابن ابی شیبة ٤٣ ،من قال لیس فی مال الیتیم زکوة حتی یبلغ ج ثانی ، ص ٣٧٩،نمبر١٠١٢٦) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کے مال میں زکوة واجب نہیں ہے۔کذا قال ابن مسعود فی مصنف ابن ابی شیبة ص١٠١٢٥۔
حاشیہ : (الف) نماز قائم کرو اور زکوة دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو (ب)آپۖ نے فرمایا مکاتب کے مال میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ وہ آزاد ہو جائے (ج)آپۖ نے فرمایا تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے یعنی کچھ واجب نہیں ہے سونے والے سے یہاں تکہ کہ بیدار ہو جائے،اور بچے سے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے اور مجنوں سے یہاں تک کہ عقلمند ہو جائے (د) ابراہیم کا قو ل ہے : فرمایا یتیم کے مال میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔