]١٠٨[(١١) واقل الطھر خمسة عشر یوما ولا غایة لاکثرہ]١٠٩[ (١٢) ودم الاستحاضة ھو ما تراہ المرأة اقل من ثلثة ایام او اکثر من عشرة ایام]١١٠[(١٣)
]١٠٨[(١١) دو حیضوں کے درمیان کم سے کم طہر پندرہ دن ہو نگے اور کوئی حد نہیں ہے زیادہ طہر کے لئے۔
تشریح دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پندرہ دن طہر ہوگا اور زیادہ طہر کے لئے کوئی حد نہیں ہے۔ دو سال اور تین سال بھی عورت کو حیض نہیں آتا ہے۔
وجہ (١) ابراہیم تخعی سے منقول ہے کہ کم سے کم طہر کی مدت پندرہ دن ہوتی ہے۔ اس لئے پندرہ دن ہونگے۔
نوٹ یہ قول مجھے نہیں ملا اورنہ صاحب درایہ کو ملا ہے (٢) اقامت کی مدت پندرہ دن ہے اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ طہر کی مدت پندرہ دن ہو۔
]١٠٩[(١٢)اور استحاضہ کا خون وہ ہے جو عورت تین دن سے کم دیکھے یا دس دن سے زیادہ دیکھے۔
تشریح عورت کوحنفیہ کے نزدیک کم سے کم تین دن تک حیض کا خون آئے گا۔ لیکن مثلا دو دن خون آیا اور پھر گیارہ دن تک کوئی خون نہیں آیا تو یہ دو دن کا خون استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا۔ اسی طرح دس دن سے زیادہ خون آیا وہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا ۔
نوٹ جن اماموں کے نزدیک حیض کا خون ہونے کا مدار خون کے کالے یا خون کے سرخ ہونے پر ہے ان کے نزدیک استحاضہ کا مسئلہ بہت آسان ہے کہ جب کالا اور انتہائی سرخ خون آئے گا تو اس کو حیض شمار کریں گے۔ اور جب پیلا ،زرد یا مٹیالا خون آئے گا تو اس کو استحاضہ شمار کریںگے۔ اور استحاضہ کی حالت میں عورت نماز پڑھے گی،روزہ رکھے گی اور شوہر سے وطی بھی کرائے گی۔ علماء فرماتے ہیں کہ عورت متحیرہ ہو یعنی نہ عادت کا اندازہ ہو کہ مہینے میں کون کون سے دن حیض آتا تھا اور نہ یہ پتہ ہو کہ کب سے حیض شروع ہوا ہے اور کب ختم ہوا ہے تو ایسی عورت کے لئے خون کی رنگت پر حیض اور استحاضہ کا فیصلہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے عن فاطمة بنت ابی حبیش انھا کانت تستحاض فقال لھا النبی ۖ اذا کان دم الحیض فانہ دم اسود یعرف فاذا کان ذلک فامسکی عن الصلوة فاذا کان الآخر فتوضئی و صلی (الف) (ابو داؤد، باب من قال توضأ لکل صلوة ص٤٨ نمبر ٣٠٤) چنانچہ امام احمد نے خون کی رنگت پر حیض اور استحاضہ کا فیصلہ کیا ہے۔
]١١٠[(١٣) استحاضہ کا حکم نکسیر پھوٹنے کے حکم کی طرح ہے ۔نہ نماز کو روکتا ہے نہ روزے کو اور نہ وطی کو۔
تشریح استحاضہ کی حالت میں یہ سب جائز ہیں۔ حدیث میںاس کی دلیل موجود ہے (١) عن عائشة انھا قالت قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللہ ۖ یا رسول اللہ انی لا اطھر؟ افادع الصلوة فقال رسول اللہ ۖ انما ذلک عرق ولیس بالحیضة فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة فاذا ذھب قدرھا فاغسلی عنک الدم وصلی (ب) (بخاری شریف، باب
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا جب حیض کا خون ہو ۔یقینا وہ کالا خون ہوتا ہے جو پہچانا جاتا ہے ۔ پس جب کہ یہ خون ہو تو نماز سے رک جاؤ ، پس جب کہ دوسرا خون ہو (یعنی استحاضہ کا) تو وضو کرو اور نماز پڑھو(ب)فاطمہ بنت ابی جیش حضورۖ سے کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں پاک نہیں ہوتی ہوں تو کیا نماز چھوڑ (باقی اگلے صفحہ پر)