Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 1 - یونیکوڈ

95 - 493
]١٠٨[(١١) واقل الطھر خمسة عشر یوما ولا غایة لاکثرہ]١٠٩[ (١٢) ودم الاستحاضة ھو ما تراہ المرأة اقل من ثلثة ایام او اکثر من عشرة ایام]١١٠[(١٣) 

]١٠٨[(١١) دو حیضوں کے درمیان کم سے کم طہر پندرہ دن ہو نگے اور کوئی حد نہیں ہے زیادہ طہر کے لئے۔  
تشریح  دو حیضوں کے درمیان کم سے کم پندرہ دن طہر ہوگا اور زیادہ طہر کے لئے کوئی حد نہیں ہے۔ دو سال اور تین سال بھی عورت کو حیض نہیں آتا ہے۔  
وجہ  (١) ابراہیم تخعی سے منقول ہے کہ کم سے کم طہر کی مدت پندرہ دن ہوتی ہے۔ اس لئے پندرہ دن ہونگے۔  
نوٹ  یہ قول مجھے نہیں ملا اورنہ صاحب درایہ کو ملا ہے (٢) اقامت کی مدت پندرہ دن ہے اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ طہر کی مدت پندرہ دن ہو۔
]١٠٩[(١٢)اور استحاضہ کا خون وہ ہے جو عورت تین دن سے کم دیکھے یا دس دن سے زیادہ دیکھے۔  
تشریح  عورت کوحنفیہ کے نزدیک کم سے کم تین دن تک حیض کا خون آئے گا۔ لیکن مثلا دو دن خون آیا اور پھر گیارہ دن تک کوئی خون نہیں آیا تو یہ دو دن کا خون استحاضہ کا خون شمار کیا جائے گا۔ اسی طرح دس دن سے زیادہ خون آیا وہ استحاضہ کا خون شمار ہوگا ۔
 نوٹ  جن اماموں کے نزدیک حیض کا خون ہونے کا مدار خون کے کالے یا خون کے سرخ ہونے پر ہے ان کے نزدیک استحاضہ کا مسئلہ بہت آسان ہے کہ جب کالا اور انتہائی سرخ خون آئے گا تو اس کو حیض شمار کریں گے۔ اور جب پیلا ،زرد یا مٹیالا خون آئے گا تو اس کو استحاضہ شمار کریںگے۔ اور استحاضہ کی حالت میں عورت نماز پڑھے گی،روزہ رکھے گی اور شوہر  سے وطی بھی کرائے گی۔ علماء فرماتے ہیں کہ عورت متحیرہ ہو یعنی نہ عادت کا اندازہ ہو کہ مہینے میں کون کون سے دن حیض آتا تھا اور نہ یہ پتہ ہو کہ کب سے حیض شروع ہوا ہے اور کب ختم ہوا ہے تو ایسی عورت کے لئے خون کی رنگت پر حیض اور استحاضہ کا فیصلہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ حدیث میں ہے  عن فاطمة بنت ابی حبیش انھا کانت تستحاض فقال لھا النبی ۖ اذا کان دم الحیض فانہ دم اسود یعرف فاذا کان ذلک فامسکی عن الصلوة فاذا کان الآخر فتوضئی و صلی (الف) (ابو داؤد، باب من قال توضأ لکل صلوة ص٤٨ نمبر ٣٠٤) چنانچہ امام احمد نے خون کی رنگت پر حیض اور استحاضہ کا فیصلہ کیا ہے۔
]١١٠[(١٣) استحاضہ کا حکم نکسیر پھوٹنے کے حکم کی طرح ہے ۔نہ نماز کو روکتا ہے نہ روزے کو اور نہ وطی کو۔  
تشریح  استحاضہ کی حالت میں یہ سب جائز ہیں۔ حدیث میںاس کی دلیل موجود ہے  (١) عن عائشة انھا قالت قالت فاطمة بنت ابی حبیش لرسول اللہ ۖ یا رسول اللہ انی لا اطھر؟ افادع الصلوة فقال رسول اللہ ۖ انما ذلک عرق ولیس بالحیضة فاذا اقبلت الحیضة فاترکی الصلوة فاذا ذھب قدرھا فاغسلی عنک الدم وصلی (ب) (بخاری شریف، باب 

حاشیہ  :  (الف) آپۖ نے فرمایا جب حیض کا خون ہو ۔یقینا وہ کالا خون ہوتا ہے جو پہچانا جاتا ہے ۔ پس جب کہ یہ خون ہو تو نماز سے رک جاؤ ، پس جب کہ دوسرا خون ہو (یعنی استحاضہ کا) تو وضو کرو اور نماز پڑھو(ب)فاطمہ بنت ابی جیش حضورۖ سے کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں پاک نہیں ہوتی ہوں تو کیا نماز چھوڑ (باقی اگلے صفحہ پر) 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ( کتاب الطھارة ) 35 1
3 ( باب التیمم ) 73 2
4 (باب المسح علی الخفین) 82 2
5 (باب الحیض) 90 2
6 (باب الانجاس) 101 2
7 (کتاب الصلوة) 113 1
8 (باب الاذان) 121 7
9 (باب شروط الصلوة التی تتقدمھا) 127 7
10 (باب صفة الصلوة) 134 7
11 (باب قضاء الفوائت) 192 7
12 (باب الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة) 195 7
13 (باب النوافل) 200 7
14 (باب سجود السھو) 209 7
15 (باب صلوة المریض) 216 7
16 (باب سجود التلاوة) 221 7
17 (باب صلوة المسافر) 226 7
18 (باب صلوة الجمعة) 238 7
19 (باب صلوة العدین ) 250 7
20 ( باب صلوة الکسوف) 259 7
21 ( باب صلوة الاستسقائ) 263 7
22 ( باب قیام شہر رمضان) 265 7
23 (باب صلوة الخوف) 268 7
24 ( باب الجنائز) 273 7
25 ( باب الشہید) 291 7
26 ( باب الصلوة فی الکعبة) 295 7
27 ( کتاب الزکوة) 298 1
28 (باب زکوة الابل ) 303 27
29 (باب صدقة البقر ) 308 27
30 ( باب صدقة الغنم) 312 27
31 ( باب زکوة الخیل) 314 27
32 (باب زکوة الفضة) 322 27
33 ( باب زکوة الذھب ) 325 27
34 ( باب زکوة العروض) 326 27
35 ( باب زکوة الزروع والثمار ) 328 27
36 (باب من یجوز دفع الصدقة الیہ ومن لایجوز) 337 27
37 ( باب صدقة الفطر) 347 27
38 ( کتاب الصوم) 354 1
39 ( باب الاعتکاف) 378 38
40 ( کتاب الحج ) 383 1
41 ( باب القران ) 426 40
42 ( باب التمتع ) 433 40
43 ( باب الجنایات ) 442 40
44 ( باب الاحصار ) 471 40
45 ( باب الفوات ) 478 40
46 ( باب الھدی ) 481 40
Flag Counter