توضأ فاتہ الوقت لم یتیمم ولکنہ یتوضاو یصلی فائتتہ]٧٩[(١٦) والمسافر اذا نسی الماء فی رحلہ فتیمم وصلی ثم ذکر الماء فی الوقت لم یعد صلوتہ عند ابی حنیفة ومحمد وقال ابو یسف یعید]٨٠[(١٧) ولیس علی المتیمم اذا لم یغلب علی ظنہ ان
وجہ یہاں وقت تنگ ہونے کی وجہ سے نماز قضا ہوگی۔اور قضا اداکا خلیفہ ہے ۔اس لئے نماز مکمل فوت نہیں ہوئی۔ اس لئے وضو کرے گا۔اور وقت فوت ہو گیا تو قضا نماز پڑھے گا۔
]٧٩[(١٦) مسافر پانی اپنے کجاوہ میں بھول گیا اور تیمم کیا اور نماز پڑھی پھر وقت میں پانی یاد آیا تو اپنی نماز نہیں لوٹا ئیگاامام ابو حنیفہ اور محمد رحمھما اللہ کے نزدیک ۔اور امام ابو یوسف نے فرمایا نماز لوٹا ئے گا۔
وجہ طرفین فرماتے ہیں کہ کجاوہ میں عموما پانی خود پینے کے لئے اور اونٹ کو پلانے کے لئے ہوتا ہے ۔وضو کرنے کے لئے صحرا اور جنگل میں کجاوہ میں پانی نہیں رکھتے۔اس لئے پانی بھول جانا پانی نہ پانے کے لئے مقبول عذر ہے۔ اس لئے گویا کہ اس نے پانی نہیں پایا ۔اس لئے اس کا تیمم درست ہے۔ اس لئے نماز نہیں لوٹائے گا ۔
اصول کجاوہ کی حالت پانی کو یاد دلانے والی نہیں ہے۔
فائدہ اور امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ کجاوہ میں عموما پانی ہوتا ہے چاہے وہ پینے کے لئے ہی ہو۔ اس لئے نہ اس کا تیمم درست ہے اور نہ نماز۔اس لئے نماز لوٹائے گا۔
اصول کجاوہ کی حالت پانی کو یاد دلانے والی ہے۔
نوٹ اختلاف اس صورت میں ہے جب خود پانی رکھا ہو۔ یا اس کے حکم سے کسی نے پانی رکھا ہو۔ اور اگر کسی اور نے اس کے کجاوہ میں پانی رکھا تھا تو بالاتفاق تیمم کرنا درست ہے کیونکہ یہ معذور ہے۔
نوٹ یہ مسئلہ اصول پر مبنی ہے۔
لغت رحل : کجاوہ
]٨٠[(١٧) تیمم کرنے والے پر پانی تلاش کرنا ضروری نہیں ہے جب کہ اس کو غالب گمان نہیں ہے کہ اس کے قریب پانی ہے
وجہ (١) جنگل اور صحرا میں ہے اور قرب و جوار میں پانی کے آثار نہیں ہیں اور غالب گمان نہیں ہے کہ ایک میل کے اندر پانی ملے گا تو حقیقی طور پر بھی پانی پانے والا نہیں ہے اور آثار سے بھی پانی پانے والا نہیں ہے ۔اس لئے اس پر پانی کا تلاش کرنا ضروری نہیں ہے (٢) اس کا اندازہ حضرت عبد اللہ ابن عمر کے عمل سے بھی ہوتا ہے عن نافع انہ اقبل ھو و عبد اللہ بن عمر من الجرف حتی اذا کانا بالمربد نزل عبد اللہ فتیمم صعیدا طیبا فمسح بوجھہ ویدیہ الی المرفقین ثم صلی (الف)(مؤطا امام مالک ، باب العمل فی التیمم
حاشیہ : (الف) حضرت نافع اور حضرت عبداللہ بن عمر مقام جرف سے تشریف لا رہے تھے۔یہاں تک کہ جب دونوں مربد کے پاس آئے تو عبد اللہ بن عمر اترے پھر پاک مٹی سے تیمم کیا ۔ پس چہرے کو پونچھا اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت پونچھا پھر نماز پڑھی۔