بقربہ ماء ان یطلب المائ]٨١[(١٨)وان غلب علی ظنہ ان ھناک ماء لم یجز لہ ان یتیمم حتی یطلبہ]٨٢[(١٩) وان کان مع رفیقہ ماء طلبہ منہ قبل ان یتیمم فان منعہ منہ تیمم و صلی۔
ص ٤١) اور بخاری کی اسی حدیث میں اتنی عبارت زیادہ ہے ثم دخل المدینة واشمس مرتفعة فلم یعد (الف) (بخاری شریف، باب التیمم فی الحضر اذا لم یجد الماء ص ٤٨،نمبر ٣٣٧) ان دونوں حدیثوں کو ملانے سے معلوم ہوا کہ گر پانی دور ہو اور قریب میں ملنے کی امید نہ ہو تو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر نے مدینہ آنے کے بعد نماز نہیں لوٹائی۔
]٨١[(١٨)اور اگر اس کو غالب گمان ہے کہ یہاں (قریب میں) پانی ہے تو اس کے لئے جائز نہیں ہے کہ تیمم کرے یہاں تک کہ پانی کو تلاش کرے ۔
وجہ (١)غالب گمان یہ پانی پانے کی علامت ہے۔ اس لئے پانی پاتے وقت تیمم نہیں کر سکتا جب تک کہ پانی تلاش کرنے کے بعد یہ یقین نہ ہوجائے کہ ایک میل کے اندر پانی نہیں ہے(٢) حضرت علی کا قول بھی ہے عن علی اذا اجنب الرجل فی السفر تلوم ما بینہ وبین آخر الوقت فان لم یجد الماء تیمم و صلی (دار قطنی ، باب فی بیان الموضع الذی یجوز التیمم فیہ ج اول ص ١٩٥ نمبر ٧١٠ مصنف ابن ابی شیبة ،١٩٥ من قال لا یتیمم ما رجا ان یقدر علی الماء ،ج اول،ص ١٤٨، نمبر ١٧٠١)
اصول علامت ظاہرہ اور غالب گمان پانی پانے کے درجے میں ہیں ۔
فائدہ امام شافعی کے یہاں ہے کہ پانی ملنے کی امید ہو یا نہ ہو ہر حال میں تلاش کرنا ہوگا اور پانی نہ ملنے پر تیمم کرے گا۔تاکہ فلم تجدوا ماء کا مکمل تحقق ہو جائے۔
]٨٢[(١٩) اگر ساتھی دوست کے پاس زائد پانی ہے تو تیمم کرنے سے پہلے اس سے مانگے۔ پس اگر وہ پانی سے منع کردے تو تیمم کرے اور نماز پڑھے۔
وجہ (١) ساتھی ہونا پانی ملنے کی امید ہے اس لئے مانگے بغیر تیمم نہ کرے (٢) اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے عن عائشة ان رسول اللہ ۖ استیقظ وحضرت الصلوة فالتمس الناس الماء فلم یجدوا(ب) (سنن للبیھقی، باب اعواز الماء بعد طلبہ ج اول ص ٢٢٣) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اندازہ ہو کہ پانی ملے گا تو پہلے اس کی کوشش کرے پھر نہ ملنے پر تیمم کرے۔
حاشیہ : (الف) پھر حضرت ابن عمر مدینہ میں داخل ہوئے اس حال میں کہ سورج بلند تھا اور نماز عصر نہیں لوٹائی(ب)حضورۖ بیدار ہوئے اس حال میں کہ نماز کا وقت ہوچکا تھا تو لوگوں نے پانی تلاش کی۔