والزرنیخ وقال ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی لا یجوز الا بالتراب والرمل خاصة]٦٩[(٦) والنیة فرض فی التیمم و مستحبتةفی الوضوئ]٧٠[(٧) وینقض التیمم کل شیء ینقض الوضوئ۔
ہے۔ چاہے اس میں اگنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔ جیسے پتھر وغیرہ (٢) ّآیت تیمم میں ہے فتیمموا صعیدا طیبا اور صعید کے معنی زمین کا اوپر کا حصہ ہے چاہے اس میں اگنے کی صلاحیت ہو یا نہ ہو۔ اس لئے ریت، پتھر ، گچ ، چونہ ، سرمہ اور ہڑتال سے بھی تیمم کر سکتا ہے ۔اثر میں ہے ۔ عن حماد قال تیمم بالصعید والجص والجبل والرمل (مصنف ابن ابی شیبہ، ١٩٦ مایجزی الرجل فی تیممہ ،ج اول ص ١٤٨،نمبر ١٧٠٤) اس اثر سے امام ابو حنیفہ کی تائید ہوتی ہے۔
نوٹ ہر وہ چیز جوآگ میں جلے نہیں اور پگھلے نہیں وہ تمام چیزیں زمین کی جنس سے ہیں۔
فائدہ امام ابو یوسف حدیث کی بنیاد پر یہ فرماتے ہیں کہ صرف وہ مٹی جس میں اگنے کی صلاحیت ہو اور ریت سے تیمم کرسکتا ہے دوسری چیزوں سے تیمم نہیں کر سکتا۔ ان کی دلیل یہ اثر ہے۔عن ابن عباس قال اطیب الصعید الحرث والارض الحرث(مصنف ابن ابی شیبة ،١٩٦ مایجزی الرجل فی تیممہ ،ص ١٤٨، نمبر ١٧٠٢)
لغت التراب : مٹی۔ الرمل : ریت، الجص : گچ، النورة : چونہ، الکحل : سرمہ، الزرنیخ : ہڑتال (ایک قسم کی دھات ہوتی ہے)
فائدہ امام شافعی کے نزدیک صرف مٹی سے تیمم جائز ہے۔ان کی دلیل امام ابو یوسف کی دلیل ہے۔
]٦٩[(٦) تیمم میں نیت فرض ہے اور وضو میں مستحب ہے۔
وجہ (١)تیمم کے معنی ہی ہیں قصد اور ارادہ کرنے کے، اس لئے تیمم میں تیمم کرنے کا ارادہ اور نیت کی جائے گی تو پاکی ہوگی۔ اور بغیر ارادہ کے چہرہ اور ہاتھ پر مٹی پھر گئی توپاکی نہیں ہوگی (٢) پانی بذاتہ خود طاہر اور طہور ہے۔ اس کے برخلاف مٹی سے تو چہرہ اور خراب ہوتا ہے۔ اس لئے وضو میں نیت کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لئے وہاں نیت کرنا مستحب ہے۔اور مٹی بذاتہ مطہر نہیں ہے اس لئے نیت کرنے سے مطہر بنے گی۔ اس لئے تیمم میں نیت کرنا فرض ہے۔آیت میں ہے۔ تیمموا صعیدا طیبا(آیت ٤٣،سورة النسائ٤) اس کا ترجمہ ہے پاک مٹی کا رادہ کرو۔جس سے ارادہ اور نیت کا ثبوت ہوا۔
( نواقض تیمم کا بیان )
]٧٠[(٧) تیمم کو وہ تمام چیزیں توڑتی ہیں جو وضو کو توڑتی ہیں۔
وجہ تیمم وضو کے قائم مقام ہے اس لئے جو احداث وضو کو توڑتے ہیں وہ تمام تیمم کو بھی توڑ دیںگے۔اسی طرح غسل کا تیمم غسل کے قائم مقام ہے ۔اس لئے جو جنابت،حیض اور نفاس غسل کو توڑتے ہیں وہ غسل کے تیمم کو توڑ دیںگے۔