(٥٥) و عن محمد بن الحسن رحمة اللہ تعالی انہ قال ینزح منھا مائتا دلوا الی ثلث مائة (٥٦)واذا وجد فی البئر فارة او غیرھا ولا یدرون متی وقعت ولم تنتفخ ولم تنفسخ اعادوا صلوة یوم و لیلة اذا کانوا توضؤا منھا وغسلوا کل شیء اصابہ ماء ھا(٥٧) وان
گا۔ چشمہ کا پانی بعد میں آکر کتنا ہی بھر دے۔ امام ابو حنیفہ کا قول یہی ہے۔ ایک صورت یہ بھی ہے کہ کنویں کی مقدار گڑھا کھودے اور اس گڑھے کو پانی نکال نکال کر بھردے تو سمجھا جائے گا کہ پورے کنویں کا پانی نکال دیا۔ اس سے کنواں پاک ہو جائے گا ۔زمزم والے کنویں میں حبشی گرا تھا جس کی وجہ سے پورا پانی نکالنا چاہا لیکن چشمے کی وجہ سے نہیں نکال سکے۔لیکن جتنا پانی کنویں میں تھا اس لئے حضرت عبد اللہ بن زبیر نے فرمایا اتنا نکالنا کافی ہے۔ عبارت یہ ہے۔فنظرو فاذا عین تنبع من قبل الحجر الاسود قال فقال ابن الزبیر حسبکم (مصنف ابن ابی شیبة ،١٩٨ فی الفارة والدجاجة واشباھھما تقع فی البئر ،ج اول، ص ١٥٠، نمبر ١٧٢١)
لغت معینا : چشمہ والا کنواں،عین سے مشتق ہے۔
(٥٥) امام محمد سے منقول ہے کہ کنویں سے دو سو ڈول سے تین سو ڈول تک نکالے جائیں گے۔
تشریح (١)یہ قول سہولت کے طور پر ہے (٢)امام محمد نے اپنے ملک بغداد اور کوفہ میں دیکھا کہ عام طور پر کنویں میں پانی دوسو سے لیکر تین سو ڈول تک ہوتا ہے۔ اس لئے وجوبی طور پر دو سو ڈول اور استحبابی طور پر تین سو ڈول نکال دے تو کنواں پاک ہو جائے گا۔ پورے کنویں کا پانی نکالنے کی دلیل حبشی گرنے کی حدیث گزر چکی ہے۔اسی طرح ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت کرنے سے منع کرنے کی حدیث گزر چکی ہے جس سے معلوم ہوا کہ پورا کنواں ناپاک ہو جائے گا ۔
نوٹ مردہ جانور پہلے نکالے اس کے بعد ڈول سے یہ سب مقدار نکالے تب پاک ہوگا۔
اصول اصل مقصد کنویں میں موجود تمام پانی کو نکالنا ہے۔
(٥٦)اگر کنویں میں چوہا پایا ،یا اس کے علاوہ مرا ہوا پایا جائے اور نہیں معلوم کہ کب گرا ہے اور ابھی پھولا اور پھٹا نہیں ہے تو ایک دن اور ایک رات کی نمازلوٹا ئی جائے گی جب کہ اس پانی سے وضو کیا ہو۔ اور ان تمام چیزوں کو دو بارہ دھویا جائے گا جن میں اس کا پانی لگا ہو۔
وجہ جانور کنویں میں مرا ہوا ملا اور کوئی علامت نہیں ہے کہ کب گرا ہے اور کب مرا ہے تو ایک دو گھنٹے کا کوئی معیار نہیں ہے اس لئے یہی سمجھا جائے گا کہ ایک دن ایک رات پہلے مرا ہے اور اس درمیان جن جن لوگوں نے اس پانی سے وضو کیا ہے اس کو وہ تمام نمازیں لوٹا نی ہوگی۔ کیونکہ ناپاک پانی سے نہ وضو ہو اور نہ نماز ہوئی۔ اور اس پانی سے ایک دن اور ایک رات کے درمیان جن لوگوں نے غسل کیا ہے یا کپڑا دھویا ہے ان کو بھی غسل اور نماز لوٹا نی ہوگی۔ کیونکہ ناپاک پانی سے غسل کیا ہے اور کپڑے دھویا ہے
اصول احتیاط پر عمل کیا جائے گا۔
(٥٧) اور اگر جانور پھول گیا یا پھٹ گیا تو تین دن اور تین راتوں کی نماز لوٹا ئے گاابو حنیفہ کے قول میں ۔