Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 1 - یونیکوڈ

58 - 493
الباقلاء والمرق وماء الوردوماء الزردج(٣٦)وتجوز الطھارة بماء خالطہ شیء طاھر فغیر احد اوصافہ کماء المد والماء الذی یختلط بہ الاشنان والصابون والزعفران (٣٧) وکل 

ہے۔جس سے معلوم ہوا کہ کوئی پاک چیز پاک پانی میں مل جائے اور طبیعت نہ بدلے تو اس سے وضو جائز ہے۔
 اصول  پانی کی طبیعت نہ بدلی ہو تو وضو جائز ہوگا۔
 لغت  الخل  :  سرکہ۔  باقلا  :  لوبیا (ایک قسم کی سبزی ہوتی ہے) المرق  :  شوربا۔  ورد  :  گلاب۔  الزردج  :  گاجر  
نوٹ  پانی کی طبیعت کبھی اجزاء کے اعتبار سے بدلتی ہے اور کبھی اوصاف کے اعتبار سے۔
(٣٦)اور جائزے وضو ایسے پانی سے جس میں پاک چیز مل گئی ہو اور اس کے اوصاف میں سے ایک وصف بدل دیا ہو۔ جیسے سیلاب کا پانی اور وہ پانی جس میں اشنان گھاس اور صابون اور زعفران ملائے گئے ہوں۔
وجہ  (١)پانی میں مٹی مل جانے کی وجہ سے اگر رقت اور سیلان باقی ہے تو طہارت جائز ہے۔جیسے سیلاب کے پانی میں کافی مٹی مل جاتی ہے۔پھر بھی لوگ اس کو پانی کہتے ہیں اس لئے اس سے وضو کرنا جائز ہے (٢) اس پانی سے وضو کرنے میں مجبوری بھی ہے ورنہ دیہاتی لوگ صاف پانی کہاں سے لائیںگے۔
صابون اور اشنان گھاس کا حکم  :  (١)پانی میں ایسی چیز ملائی جائے جس سے پانی کو مزید ستھرا کرنا مقصود ہو جیسے بیری کی پتی ڈال کر پانی کو مزید ستھرا کرنا مقصود ہوتا ہے یا اشنان گھاس یا صابون یا زعفران ڈال کر پانی کو مزید صاف ستھرا کرنا مقصود ہوتا ہے تو اس کے ڈالنے کے بعد رقت اور سیلان باقی ہوتو طہارت جائز ہوگی۔ کیونکہ پانی کا نام اور پانی کی طبیعت باقی رہتی ہے(٢)حدیث میں ہے کہ بیری کی پتی ڈال کر پانی کو جوش دیا گیا اور مردہ کو نہلایا گیا ۔اگر ان چیزوں کے ڈالنے سے طہارت جائز نہیں ہوتی تو بیری کی پتی ڈال کر جوش دینے کے بعد کیسے نہلاتے اور کیسے طہارت ہوتی؟حدیث ہے  عن ابن عباس عن النبی ۖ خر رجل من بعیرہ فوقص فمات فقال اغسلوہ بماء وسدر وکفنوہ فی ثوبیہ (الف) (مسلم شریف، باب ما یفعل بالمحرم اذا مات ص ٣٨٤ نمبر ١٢٠٦ ابن ماجہ شریف،باب المحرم یموت،ص٤٤٩، نمبر ٣٠٨٤)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیری کی پتی یا کوئی چیز پانی کی صفائی کے لئے ملائی جائے تو اس پانی سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے بشرطیکہ رقت اور سیلان ختم نہ ہو گیا ہو۔
 اصول  پانی کی مزید صفائی کے لئے کوئی چیز ملائی گئی ہو تو اس پانی سے طہارت جائز ہے۔
 فائدہ  امام شافعی فرماتے ہیں کہ وہ خالص پانی نہیں رہا اس لئے اس سے طہارت جائز نہیں ہوگی(موسوعة امام شافعی ج اول ص٢٥)
 لغت  المد  :  سیلاب۔  الاشنان  :  ایک قسم کی گھاس جس کو پانی میں مزید صفائی کے لئے ڈالتے ہیں۔ 
(٣٧) ہر وہ ٹھہرا ہوا پانی (جو بڑے تالاب سے کم ہو) اگر اس میں نجاست گر جائے تو اس سے وضو جائز نہیں ہے۔ نجاست کم ہو یا زیادہ۔اس لئے کہ حضور ۖ نے پانی کو ناپاکی سے محفوظ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں 

حاشیہ  :  (الف)ایک آدمی اپنے اونٹ سے گرا اور مرگیا ،آپۖ نے فرمایا اس کو پانی اور بیری کی پتی سے غسل دو اور اس کے دونوں کپڑوں میں کفن دو۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ( کتاب الطھارة ) 35 1
3 ( باب التیمم ) 73 2
4 (باب المسح علی الخفین) 82 2
5 (باب الحیض) 90 2
6 (باب الانجاس) 101 2
7 (کتاب الصلوة) 113 1
8 (باب الاذان) 121 7
9 (باب شروط الصلوة التی تتقدمھا) 127 7
10 (باب صفة الصلوة) 134 7
11 (باب قضاء الفوائت) 192 7
12 (باب الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة) 195 7
13 (باب النوافل) 200 7
14 (باب سجود السھو) 209 7
15 (باب صلوة المریض) 216 7
16 (باب سجود التلاوة) 221 7
17 (باب صلوة المسافر) 226 7
18 (باب صلوة الجمعة) 238 7
19 (باب صلوة العدین ) 250 7
20 ( باب صلوة الکسوف) 259 7
21 ( باب صلوة الاستسقائ) 263 7
22 ( باب قیام شہر رمضان) 265 7
23 (باب صلوة الخوف) 268 7
24 ( باب الجنائز) 273 7
25 ( باب الشہید) 291 7
26 ( باب الصلوة فی الکعبة) 295 7
27 ( کتاب الزکوة) 298 1
28 (باب زکوة الابل ) 303 27
29 (باب صدقة البقر ) 308 27
30 ( باب صدقة الغنم) 312 27
31 ( باب زکوة الخیل) 314 27
32 (باب زکوة الفضة) 322 27
33 ( باب زکوة الذھب ) 325 27
34 ( باب زکوة العروض) 326 27
35 ( باب زکوة الزروع والثمار ) 328 27
36 (باب من یجوز دفع الصدقة الیہ ومن لایجوز) 337 27
37 ( باب صدقة الفطر) 347 27
38 ( کتاب الصوم) 354 1
39 ( باب الاعتکاف) 378 38
40 ( کتاب الحج ) 383 1
41 ( باب القران ) 426 40
42 ( باب التمتع ) 433 40
43 ( باب الجنایات ) 442 40
44 ( باب الاحصار ) 471 40
45 ( باب الفوات ) 478 40
46 ( باب الھدی ) 481 40
Flag Counter