والاودیة والعیون والآبار وماء البحار(٣٤) ولاتجوز الطھارة بماء اعتصر من الشجر والثمر(٣٥) ولا بماء غلب علیہ غیرہ فاخرجہ عن طبع الماء کالاشربة والخل وماء
پاکی حاصل کرنا جائز ہے
لغت اودیة : جمع ہے وادی کی۔ العیون : عین کی جمع ہے چشمہ۔ الآبار : بئر کی جمع ہے کنواں۔ البحار جمع ہے بحرکی سمندر
(٣٤) طہارت کرنا جائز نہیں ہے ایسے پانی سے جو درخت سے نچوڑا گیا ہو یا پھل سے نچوڑا گیا ہو ۔
وجہ (١)یہ پھل اور درخت کے رس ہیںپانی نہیں ہیں۔اور پانی سے پاکی کرنا جائز ہے جیسے پہلے دلائل کے ساتھ ثابت کیا اس لئے رس سے پاکی حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ چاہے وہ پھل کا رس ہو یا درخت کا رس ہو (٢)حدیث سے پتہ نہیںچلتا ہے کہ رس سے وضو کیا گیا ہو۔ اس لئے بھی رس سے وضو جائز نہیں ہوگا ۔
نکتہ صاحب ہدایہ نے نکتہ بیان کیا ہے کہ اگر کوئی رس پانی کی طرح پتلا ہو اور اس میں پانی کی پوری طبیعت ہو اور خود بخود رس ٹپک پڑا نچوڑا نہ گیا ہو تو چونکہ اس میں پانی کی پوری رقت سیلان اور طبیعت موجود ہے اس لئے ایسے رس سے وضو کرنا جائزہوگا ۔
لغت اعتصر : نچوڑا گیا ہو، مشتق ہے عصر سے۔
(٣٥) اور نہیں جائز ہے طہارت ایسے پانی سے جس پر دوسری چیز غالب آگئی ہواور اس کو پانی کی طبیعت سے نکال دیا ہو جیسے (١) شربت (٢) سرکہ (٣) لوبیاکا پانی(٤) شوربا(٥) گلاب کا پانی (٦) گاجر کا پانی ۔
وجہ (١)یہ سب اب پانی نہیں رہے بلکہ ان کا نام بھی بدل گئے ہیں اور اوصاف بھی بدل گئے ہیں۔ مثلا شربت میں دوسری چیز اتنی مل گئی ہے کہ اب اس کا نام بھی شربت ہو گیا۔اب اس کو کوئی پانی نہیں کہتا۔سرکہ کا حال بھی یہی ہے لوبیا پکا دیا جائے جس سے پانی کی حقیقت بدل جائے تو وہ شوربا کی طرح ہو جائے گا۔ اور اگر لوبیا کا پانی نچوڑا جائے تو وہ رس ہے اور رس سے وضو کرنا جائز نہیں ۔گلاب کا پانی، گاجر کا پانی یہ سب رس ہیں اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے(٢)حدیث میں اس کا اشارہ نہیں ملتا ہے۔عن ابی امامہ الباھلی قال قال رسول اللہ ۖ ان الماء لاینجسہ شی ء الا ماغلب علی ریحہ وطعمہ ولونہ (الف) (ابن ماجہ شریف، باب الحیاض ص ٧٤،نمبر ٥٢١ طحاوی شریف باب الماء تقع فیہ النجاسة ص ١٥) اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ پانی میں پاک چیز مٹی کے علاوہ مل جائے اور بو، مزہ اور رنگ بدل دے اور پانی کی طبیعت بدل جائے تو اس سے وضو اور غسل کرنا جائز نہیں ہوگا۔
نوٹ اگر پانی میں پاک چیز ملی اور اس پر غالب نہیں آئی بلکہ مغلوب رہی تو وضو جائز ہوگا۔اس حدیث سے اس کا استدلال ہے عن عبداللہ بن مسعود ان رسول اللہ ۖ قال لہ لیلة الجن عندک طھور؟ قال لا الا شی ء من نبیذ فی اداوة قال ثمرة طیبة وماء طہور فتوضأ(ب)(ابن ماجہ، باب الوضوء بالنبیذ ص٣٢ دار قطنی ،باب الوضوء بالنبیذ ج اول ص٧٨ نمبر ٢٤١) نبیذ میں کھجور ڈالا جاتا
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا یقینا پانی کو کوئی چیز ناپاک نہیں کرتی مگر غالب آجائے اس کی بو اور مزا اور رنگ پر(ب) آپۖ نے لیلة الجن میں عبد اللہ کو پوچھا کیا تمہارے پاس پاک کرنے کی چیز ہے ؟ فرمایا نہیں ! ہاں برتن میں کچھ نبیذ ہے۔آپۖ نے فرمایا پاک پھل ہے اور پانی پاک ہے،پھرآپۖ نے وضو فرمایا۔