(٢٥) وفرض الغسل المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن (٢٦) وسنة الغسل ان
( غسل کے فرائض کا بیان )
(٢٥) غسل کے فرض (١) کلی کرنا (٢) ناک میں پانی ڈالنا (٣) پورے بدن کو دھونا ہے۔
وجہ (١)اصل میں پورے بدن پر پانی پہنچانا ہے کہ ایک بال برابر بھی خشک نہ رہ جائے۔اور منہ اور ناک کے حصے بھی بدن کے باہر کے حصے شمار کئے جاتے ہیں۔اس لئے کلی کرکے اور ناک میں پانی ڈال کر وہاںتک پانی پہنچانا ضروری ہے(٢) آیت میں ہے وان کنتم جنبا فاطھروا (آیت ٦ ، سورة المائدة ٥)آیت میں ہے کہ جنابت کی حالت میں خوب خوب پاکی حاصل کرواور یہ اس وقت ہو سکتا ہے کہ کلی کرکے اور ناک میں پانی ڈال کر ہر جگہ پانی پہنچایا جائے۔اس لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں فرض ہیں(٣) حدیث میں ہے عن علی قال ان رسول اللہ ۖ قال من ترک موضع شعرہ من جنابة لم یغسلھافعل بھا کذا کذا من النار (الف) (ابو داؤد شریف، باب فی الغسل من الجنابة ص ٣٨ نمبر ٢٤٩) معلوم ہوا کہ ایک بال برابر بھی غسل میں خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا اسی لئے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔(٤) عن ابی ھریرة ان النبی ۖ جعل المضمضة والاستنشاق للجنب ثلاثا فریضة (ب) (سنن دار قطنی، باب ما روی فی مضمضة والاستنشاق فی غسل الجنابة ج اول ص ١٢١ نمبر ٤٠٣)
فائدہ امام شافعی کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا سنت ہیں۔کیونکہ احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ آپۖ غسل میں وضو کرتے تھے اور وضو میں مضمضہ اور استنشاق سنت ہیں۔ اس لئے غسل میں سنت ہونگے۔ دار قطنی میں دوسری حدیث ہے سن رسول اللہ ۖ الاستنشاق فی الجنابة ثلاثا (ج اول، ص ١٢١نمبر٤٠١)اس سے وہ سنت ثابت کرتے ہیں ۔ امام مالک کے نزدیک کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا غسل میں بھی فرض ہے۔
( غسل کی سنتوں کا بیان )
(٢٦) غسل کی سنتیں یہ ہیں (١) غسل کرنے والا پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو دھوئے(٢)اور اپنی شرم گاہ کو دھوئے (٣) اور نجاست کو زائل کرے اگر اس کے بدن پر ہو(٤) پھر نماز کے وضوکی طرح وضو کرے مگر پاؤں ابھی نہ دھوئے (٥) پھر اپنے سر پر پانی بہائے (٦) اور پورے بدن پر تین مرتبہ پانی بہائے (٧) پھر اس جگہ سے الگ ہو جائے (٨) پھر دونوں پاؤں کو دھوئے۔
وجہ یہ آٹھ کام اسی ترتیب سے سنت ہیں۔ پاؤں پہلے اس لئے نہ دھوئے کہ غسل کا پانی پاؤں کے پاس جمع ہو گا اور پاؤں کو ناپاک کر دے گا۔ اس لئے اس کو اخیر میں دھوئے۔البتہ پانی پاؤں کے پاس جمع نہ ہوتا ہو تو پہلے بھی پاؤں دھو سکتا ہے۔ حدیث میں اسی ترتیب سے ان سنتوں کا ذکر ہے۔ عن عائشة قالت کان رسول اللہ ۖ اذا اغتسل من الجنابة یبدأ فیغسل یدیہ ثم یفرغ بیمینہ علی شمالہ فیغسل فرجہ ثم یتوضأ وضوء ہ للصلوة ثم یأخذ الماء فیدخل اصابعہ فی اصول الشعر حتی اذا رأی ان قد
حاشیہ : (الف)آپ ۖ نے فرمایا جس نے جنابت سے ایک کے برابر بھی چھوڑ دیا اور نہیں دھویا تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا ایسا کیا جائے گا۔ یعنی عذاب دیا جائیگا (ب) حضور ۖ نے مضمضہ اور استنشاق کو جنبی کے لئے تین مرتبہ فرض قرار دیا (ج) حضورۖنے جنابت میں تین مرتبہ استنشاق کو سنت قرار دیا۔