(٢٣) والنوم مضطجعا او متکأ او مستندا الی شیء لو ازیل لسقط عنہ والغلبة علی العقل
سے معلوم ہوا کہ قیٔ سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
فائدہ امام شافعی اور امام مالک فرماتے ہیں کہ قے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔کیونکہ آپۖ نے قے کی اور وضو نہیں کیا۔ان کی دلیل یہ اثر ہے۔عن الحسن قال لیس فی القلس وضوء (مصنف عبد الرزاق، باب الوضوء من القیٔ والقلس،ج اول، ص ١٣٨، نمبر ٥٢٣) ہم جواب دیتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ منہ بھر کر قے نہ ہو۔ یا منھ بھر کر ہو مگر فوری طور پر وضو نہیں کیا بعد میں وضو کیا ہوگااگرچہ وضو ٹوٹ گیا تھا ۔
نوٹ بلغم وغیرہ کی قے ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا کیونکہ بلغم پر نجاست نہیں ہوتی اور نہ وہ پیٹ کے نچلے حصے سے آتا ہے(٢) حدیث میں ہے ۔عن عمار بن یاسر ... قالۖ یا عمار ! ما نخامتک ودموع عینیک والماء الذی فی رکوتک الاسواء (دار قطنی، باب نجاسة البول والامر بالتنزہ منہ الخ ، ج اول، ص ١٣٤، نمبر ٤٥٢) اس حدیث میں ہے کہ بلغم مٹکے کے پانی کی طرح پاک ہے۔
(٢٣)اور سونا کروٹ کے بل یا تکیہ لگا کریا کسی چیز پر ٹیک لگا کر کہ اگر اس کو ةتا دیا جائے تو آدمی گر جائے۔ اور عقل کا مغلوب ہونا بے ہوشی کی وجہ سے اور جنون کا ہونا (ان چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے)
وجہ (١) اصل یہ ہے کہ گہری نیند سے یا پاگل پنے سے عقل زائل ہو جاتی ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ اس حالت میں ہوا نکلی یا نہیں نکلی ۔اس لئے عقل زائل ہوتے ہی ہوا نکلنے اور وضو ٹوٹنے کا حکم لگا دیا جاتا ہے۔ اسی کو استرخاء مفاصل کہتے ہیںکہ تمام رگیں ڈھیلی ہو گئیں۔لیکن اگر نیند گہری نہ ہو ابھی کچھ ہوش باقی ہو جیسے سجدے کی حالت میں ، قیام کی حالت میں یا بیٹھے بیٹھے سو گیا تو چونکہ ابھی کچھ عقل و شعور باقی ہے اس لئے ہوا نکلنے اور وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگائیں گے۔ کروٹ کے بل یا تکیہ لگا کر یا ٹیک لگا کر سونے سے عقل زائل ہو جاتی ہے اور نیند گہری ہوتی ہے۔ البتہ گرتا اس لئے نہیں ہے کہ تکیہ اور سہارا اس کو گرنے سے روکے ہوئے ہیں۔ اس لئے وضو ٹوٹ جائے گا(٢) حدیث میں دونوں قسم کے ثبوت ہیں عن علی ابن طالب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ ۖ وکاء السَّہ العینان فمن نام فلیتوضأ (الف) (ابو داؤد، باب فی الوضوء من النوم ص ٣٠ نمبر ٢٠٣(٣) قال رسول اللہ ۖ ان الوضوء لا یجب الا علی من نام مضطجعا فانہ اذا اضطجع استرخت مفاصلہ (ب) (ترمذی شریفِ ،باب الوضوء من النوم ص ٢٤ نمبر ٧٧) ان احادیث سے معلوم ہواکہ گہری نیند سونے سے وضو ٹوٹے گا۔ ہلکی نیند ہو تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن انس قال کان اصحاب رسول اللہ ۖ ینتظرون العشاء الآخرة حتی تخفق رئوسھم ثم یصلون ولا یتوضأون (ج) (ابوداؤد شریف، باب فی الوضوء من النوم ص ٣٠ نمبر ٢٠٠ ترمذی شریف، باب الوضوء من النوم ،نمبر ٧٨) اس سے معلوم ہوا کہ بیٹھے بیٹھے یا رکوع یا سجدے میں سو جائے جس میں گہری نیند نہیں ہوتی تو وضو نہیں ٹوٹے گا
حاشیہ : (الف) ہوا کوروکنے والی چیز آنکھیں ہیں (یعنی بیدار آنکھیں) پس جو سو گیا اس کو وضو کرنا چاہئے (ب) آپۖ نے فرمایا وضو نہیں واجب ہے مگر جو کروٹ پر سوئے ۔اس لئے کہ جب کروٹ پر سوتا ہے تو اس کے جوڑ ڈھیلے ہوجاتے ہیں(تو ہوا نکلنے لگتی ہے) (ج) صحابہ کرام عشاء کا انتظار کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند سے جھونکے کھانے لگتے پھر نماز پڑھتے اور وضو نہیں کرتے۔