اذا خرج من البدن فتجاوز الی موضع یلحقہ حکم الطھارة (٢٢) والقیء اذا کان ملأ الفم
شریف ، باب غسل الدم ص ٣٦ نمبر ٢٢٨) نوٹ عرق سے مراد رگ سے نکلنے والے اور خون کی طرح اس کا حکم ہے۔ حیض کے خون کا حکم نہیں ہے(٣)قال رسول اللہ ۖ الوضوء من کل دم سائل (الف) (دار قطنی ، باب فی الوضوء من الخارج من البدن ص١٦٣ نمبر ٥٧١)
نوٹ پیپ اور کچ لہو بھی خون کی قسمیں ہیںاور خون ہی سے بنتے ہیں۔ اس لئے ان کے نکلنے سے بھی وضو ٹوٹ جائیگا ۔
فائدہ امام شافعی اور امام مالک رحمة اللہ علیھما کے نزدیک خون، پیپ بدن سے نکلے تو وضو نہیں ٹوٹے گا۔
دلائل (١) غزوۂ ذات رقاع میں عبادہ بن بشر کو تیر مارا اور وہ نماز پڑھتے رہے اور خون بہتا رہا۔ جس سے معلوم ہوا کہ خون بہنے سے وضو نہیں ٹوٹے گاورنہ وہ خون نکلتے ہی نماز توڑ دیتے۔روایت میں ہے کہ حتی رماہ بثلاثة اسھم ثم رکع وسجد (ابوداؤد شریف ، باب الوضوء من الدم ص ٢٩ نمبر ١٩٨) اس کا جواب یہ ہے کہ یہ صحابی کا اپنا فعل ہے حضور کو وضو ٹوٹنے کی اطلاع نہیں تھی(٢) امام شافعی کے یہاں خون بدن پر لگنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو جب بہا ہوگا تو خون بدن پر لگا ہی ہوگا جس سے ان کے یہاں بھی اس فعل سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ ان کا دوسرا استدلال یہ ہے کہ صحابہ کو جہاد میں زخم ہوتا تھا اور وہ نماز پڑھتے رہتے تھے۔ جس سے معلوم ہوا کہ خون ناقص نہیں ہے۔ پوری تفصیل بخاری باب من لم یر الوضاء الا من المخرجین من القبل والدبر ص ٢٩نمبر ١٧٦ تا ١٨٠ میں دیکھیں۔ہم جواب دیتے ہیں یا تو مسلسل خون بہنے سے وہ معذور کے حکم میں تھے یا خون صرف زخم پر ظاہر ہوتا تھا بہتا نہیں تھا اور خون ظاہر ہونے سے وضو ہمارے یہاں بھی نہیں ٹوٹتا جیسا کہ اوپر گزر گیا لغت القیح : پیپ ، الصدید : کچ لہو ،ایسا پیپ جس میں خون کی آمیزش ہو،تجاوز : بہہ پڑے،کھسک جائے۔
(٢٢)اور قے جب کہ منہ بھر کے ہو(تو وضو ٹوٹ جائے گا)
وجہ (١) جو قے منہ بھر کے ہو وہ پیٹ کے نچلے حصے سے آتی ہے جہاں غذا نجاست بن چکی ہوتی ہے۔ اور نجاست کا نکلنا ناقض وضو ہے اس لئے منہ بھر کے قے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ اور جو قے منہ بھر کر نہ ہو وہ پیٹ کے اوپر کے حصے سے آتی ہے جہاں غذا ابھی نجاست نہیں بنی ہوتی ہے اس لئے وہ پاک ہے ۔اس لئے منہ بھر کر قے نہ ہو تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ (٢) بعض حدیث میں ہے کہ وضو ٹوٹے گا اور بعض حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قے ہوئی اور آپۖ نے وضو نہیں فرمایا تو یہ احادیث اسی پر محمول کی جائیںگی کہ جس میں وضو کیا وہ منہ بھر کر قے تھی اور جس میں وضو نہیں کیا وہ منہ بھر کر نہیں تھی (٣) حدیث یہ ہے عن ابی درداء رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ۖ قاء فتوضأ فلقیت ثوبان فی مسجد دمشق فذکرت ذالک لہ فقال صدق انا صببت لہ وضوء ہ (ب) (ترمذی شریف، باب الوضوء من القی ء والرعاف ص ٢٥ نمبر ٨٧)(٤) مسئلہ نمبر ٢١ میں ابن ماجہ کی حدیث گزری جس میں تھا کہ قے سے وضو ٹوٹتا ہے۔اس حدیث
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے )ے کہا اے اللہ کے رسول میں ایسی عورت ہوں کہ مستحاضہ ہوتی ہو اور پاک نہیں ہوتی ہوں۔ تو کیا نماز چھوڑ دوں؟ آپۖ نے فرمایا نہیں۔ یہ صرف رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ پس تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب حیض ختم ہو جائے تو خون کو دھو لے اور نماز پڑھ۔ میرے باپ نے کہا کہ ہر نماز کے لئے وضو کر(الف) وضو ہر بہنے والے خون سے ہے۔(ب) آپۖ نے قے فرمائی پھر وضو کیا ۔ پس میں نے ثوبان سے دمشق کی مسجد میں ملاقات کی اور وضو کا تذکرہ کیا تو انہوں نے فرمایا یہ سچ بات ہے ۔میں نے حضورۖ کے لئے وضو کا پانی بہایا تھا۔