]٨٠٣[(٧) ولا یجوز الاکل من بقیة الھدایا۔
وجہ (١) جیسے قربانی کا گوشت انعام کے طور پر ہے۔اس لئے اس کو خود کھا سکتا ہے اور غرباء و مساکین کو بھی کھلا سکتا ہے (٢) حدیث میں ہے کہ آپۖ نے ہدی کے گوشت میں سے کھایا قال دخلنا علی جابر بن عبد اللہ فسأل عن القوم ... ثم انصرف الی المنحر فنحر ثلثا وستین بیدہ ثم اعطی علیا فنحر ما غبر واشرکہ فی ھدیہ ثم ام من کل بدنة ببضعة فجعلت فی قدر فطبخت فاکلا من لحمھما وشربا من مرقھا (الف) (مسلم شریف ، باب حجة النبی ص ٣٩٩ نمبر ١٢١٨ ابو داؤد شریف، باب صفة حجة النبی ،ص ٢٧١، نمبر ١٩٠٥) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورۖ نے ہدی کا گوشت کھایا اس لئے نفلی ہدی،قران اور تمتع کی ہدی کا گوشت کھانا جائز ہے۔اور جنایات اور شکار کے بدلے کا گوشت خود جنایت دینے والے کو کھانا جائز نہیں ہے۔اس کے لئے یہ اثر ہے عن ابن عمر لا یوکل من جزاء الصید والنذر ویوکل مما سوی ذلک وقال عطاء یأکل ویطعم من المتعة (ب) (بخاری شریف ، باب اذا بوانا لابراہیم مکان البیت ان لاتشرک بی شیئا ص ٢٣٢ نمبر ١٧١٩) (٣) عن ابن عباس انہ قال فی الحمامة شاة لایوکل منھا یتصدق بھا،روینا عنہ فی الذی یطأ امرأتہ قبل الطواف انحر ناقة سمینة فاطعمھا المساکین وروینا عن طاؤس وسعید بن جبیر انھما قالا لا یأکل من جزاء الصید ولا من الفدیة (ج) (سنن للبیھقی ، باب لا یأکل من کل ہدی کان اصلہ واجبا علیہ الخ ج خامس ص٣٩٦، نمبر١٠٢٤٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جنایت کا بدلے کا گوشت خود نہ کھائے بلکہ مساکین کو کھلادے۔
]٨٠٣[(٧)باقی ہدی کو کھانا جائز نہیں ہے۔
تشریح جنایت کا بدلہ،شکار کا بدلہ ان قسم کی ہدی کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔
وجہ یہ جرم ہیں دم انعام نہیں ہے اس لئے خود نہ کھائے ذبح کرکے غرباء و مساکین کو کھانے کے لئے چھوڑ دے۔دلیل مسئلہ نمبر ٦ میں گزر چکی ہے (بخاری شریف نمبر ١٧١٩) (٢)یہ حدیث بھی اسکی دلیل ہے حدثنی موسی بن سلمة الھذلی ... فقال یا رسول اللہ ۖ کیف اصنع بما ابدع علی منھا قال انحر ھا ثم اصبغ نعلیھا فی دمھا ثم اجعلھا علی صفتحھا فلا تأکل منھا انت ولا احد من اھل رفقتک (د) (ابو داؤد شریف، باب فی الہدی اذا عطب قبل ان یبلغ ص ٢٥٢ نمبر ١٧٦٣ ترمذی شریف ، باب ما جاء اذا عطب الھدی ما یصنع بہ ص ١٨١ نمبر ٩١٠ موطا امام مالک ، باب فی الھدی اذا عطب او ضل ص ٤٠١) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنایات کی
حاشیہ : (الف) پھر حضورنحر کرنے کی جگہ کی طرف واپس لوٹے اور تریسٹھ اونٹ اپنے ہاتھ سے نحر فرمائے،پھر حضرت علی کو دیا پس انہوں نے باقی اونٹ نحر کئے،اور ہدی میں ان کو شریک کیا ،پھر حکم دیا کہ ہر اونٹ کے گوشت کے ٹکڑے کو ہانڈی میں کیا جائے پھر سب کو پکایا گیا پھر دونوں نے اس کے گوشت کو کھایا اور اس کے شوربہ سے پیا (ب) ابن عمر سے منقول ہے کہ نہ کھایا جائے شکار کے بدلے کا گوشت اور نذر کی ہدی کا گوشت اوران کے علاوہ کھایا جائے ،اور حضرت عطا نے فرمایا تمتع کا گوشت کھائے اور دوسروں کو کھلائے (ج) حضرت ابن عباس نے فرمایا کبوتر کے بدلے میں ایک بکری ہے۔ اس کو کھایا نہ جائے ،اس کو صدقہ کردیا جائے۔انہیں سے رایت ہے اس شخص کے بارے میں جو طواف سے پہلے وطی کرلے نحر کرے موٹا اونٹ اور اس کو مسکین کو کھلائے۔طاؤس اور سعید بن جبیر سے روایت ہے کہ شکار کا بدلہ نہ کھائے اور نہ فدیہ کا بدلہ کھائے(د) پوچھا یا رسول اللہ ! کیسے کروں اگر ہدی میں سے کچھ عیب دار ہو جائے؟ آپۖ نے فرمایا اس کو نحر کردو پھر اس کے کھر کو اس کے خون میں رنگ دو ،پھر کھر کو اس کی ایک جانب پر رکھ دو۔پھر تم اور تمہارے ساتھی میں سے کوئی اس کو نہ کھائے۔