]٧٨٩[(١٣) ومن احصر بمکة وھو ممنوع عن الحج والوقوف والطواف کان محصرا ]٧٩٠[(١٤) وان قدر علی ادراک احدھما فلیس محصر۔
ہو اور جا کر حج کرے تو بہتر ہے تاکہ احرام باندھ کر جس کام کا عہد کیا تھا وہ پورا کرے،اسی لئے مصنف نے فرمایا کہ استحسانا ایسا کرنا جائز ہے۔قیاس کا تقاضا یہ نہیں ہے۔
]٧٨٩[(١٣) جو مکہ مکرمہ میں محصور ہو گیا اور وہ حج کرنے سے اور وقوف عرفہ کرنے سے اور طواف کرنے سے روک دیا گیا تو وہ محصر ہے تشریح وقوف عرفہ کرنا اور طواف زیارت کرنا حج کے یہ دو ارکان اصل ہیں اور ان دونوں سے روک دیئے گئے تو مکہ مکرمہ میں رہتے ہوئے بھی محصر ہو جائے گا۔
وجہ (١)کیونکہ وقوف عرفہ نہیں کیا تو حج نہیں ہوا اور طواف نہ کر سکا تو عمرہ کرکے بھی حلال نہیں ہو سکے گا تو گویا کہ وہ لوگ جو حل میں محصر ہوتے ہیں ان کی طرح محصر ہو گئے (٢) سئل مالک عن من اھل من اھل مکة بالحج ثم اصابہ کسر او بطن متخرق او امرأة تطلق قال من اصابہ ھذا منھم فھو محصر یکون علیہ مثل ما یکون علی اھل الآفاق اذا ھم احصروا (الف) موطا امام مالک ، باب ماجاء فیمن احصر بغیر عدو ص ٣٨٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اہل مکہ حج کرنے سے اور طواف کرنے سے روک دیئے گئے تو وہ بھی آفاقی کی طرح محصر ہوںگے۔
]٧٩٠[(١٤)اور اگر وقوف عرفہ یا طواف بیت اللہ کے پانے پر قدرت ہو تو محصر نہیں ہے۔
تشریح وقوف عرفہ کرسکتا ہو تو حج ہوگیا،اب طواف زیارت باقی ہے تو وہ کبھی بھی کر سکتا ہے،اس لئے گویا کہ وہ محصر نہیں ہے۔ اور اگر طواف بیت اللہ کر سکتا ہے اور وقوف عرفہ نہیں کرسکتا تو حج تو فوت ہو جائے گا لیکن عمرہ کا طواف اور سعی کرکے حلال ہو سکتا ہے۔اس لئے اب اس کو احصار کی ہدی لازم نہیں ہوگی تو گویا کہ محصر نہیں ہوا ۔یہی مطلب ہے فلیس بمحصر کاکہ اس کو احصار کی ہدی لازم نہیں ہوگی۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کا حج ہو گیا اور وہ واقعی محصر نہیں ہے ۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک وقوف عرفہ ، یا طواف دونوں میں سے ایک سے روک دیا جائے تو محصر ہوگا ۔ان کی دلیل مسئلہ نمبر ١٣ میں اثر امام مالک ہے۔
حاشیہ : (الف) حضرت مالک سے پوچھا گیا جس نے اہل مکہ میں حج کا احرام باندھا پھر اس کا پاؤں ٹوٹ گیا یا پیچش ہو گئی یا عورت کو طلاق دیدی گئی ؟ فرمایا ان میں جن کو یہ عوارض لاحق ہوں وہ محصر ہیں۔ان پر ایسے ہی ہے جیسے آفاقی پر ہے جب آفاقی محصر ہو جائیں۔