]٧٩٣[(٣) والعمرة لا تفوت ]٧٩٤[(٤)وہی جائزة جی جمیع السنة الا خمسة ایام یکرہ فعلھا فیھا یوم عرفة و یوم النحر وایام التشریق]٧٩٥[ (٥) والعمرة سنة
اور نہ ہو تو ذبح نہ کرو جس کا مطلب یہ ہے کہ اعمال عمرہ کرے تو حج فوت کرنے والے پر ہدی لازم نہیں ہے۔
]٧٩٣[(٣)عمرہ فوت نہیں ہوتا ہے۔
تشریح حج کا معاملہ یہ ہے کہ نویں ذی الحجہ کو عرفات کا وقوف کرے گا تو حج ہوگا اور اس وقت عرفات کا وقوف نہ کر سکا تو اب حج نہیں ہوگا۔اب آئندہ سال حج کا احرام باندھ کر پھر نویں ذی الحجہ میں وقوف کرے تو حج ہوگا ۔لیکن عمرہ کا معاملہ کسی دن کے ساتھ خاص نہیں ہے ،وہ کسی دن میں بھی کر سکتا ہے ۔اس لئے عمرہ میں احصار تو ہوگا لیکن فوت نہیں ہوگا،وہ جب بھی ادا کرے گا ادا ہی ہوگا۔
]٧٩٤[(٤)عمرہ جائز ہے پورے سال میں مگر پانچ دنوں میں کہ ان میں اس کا کرنا مکروہ ہے۔عرفہ کا دن دسویں ذی الحجہ اور ایام تشریق کے تین دن۔
تشریح عمرہ پورے سال میں جائز ہے لیکن نویں ذی الحجہ ، دسویں ذی الحجہ ، گیارہویں ذی الحجہ ، بارہویں ذی الحجہ اور تیرہویں ذی الحجہ کو گویا کہ پانچ دنوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔
وجہ (ا)اثر میں ہے عن عائشة قالت حلت العمرة الدھر الا ثلاثة ایام یوم النحر ویومین من ایام التشریق اور دوسرے اثر میں ہے عن العمرة قال اذا مضت ایام التشریق فاعتمر متی شئت الی قابل (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٨ فی العمرة من قال فی کل شہر ومن قال متی ما شئت جثالث، ص ١٢٦، نمبر١٢٧٢٢١٢٧٢١) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایام تشریق میں عمرہ مکروہ ہے۔اور اس کے بعد سارے سال میں جب چاہے عمرہ کر سکتا ہے۔
]٧٩٥[(٥)عمرہ سنت ہے۔
وجہ عمرہ سنت ہونے کی دلیل یہ حدیث ہے عن جابر عن النبی ۖ سئل عن العمرة اواجبة ھی قال لا وان یعتمروا ھو افضل (ب) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی العمرة اواجبة ھی ام لا ص ١٨٦ نمبر ٩٣١ دار قطنی ، کتاب الحج ج ثانی ص ٢٥١ نمبر ٢٧٠١) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمرہ سنت ہے واجب نہیں ہے۔
فائدہ بعض اصحاب ظواہر اس کو واجب کہتے ہیں ان کی دلیل یہ حدیث ہے عن زید بن ثابت قال قال رسول اللہ ۖ ان الحج والعمرة فریضتان لا یضرک بایھما بدأت(ج) (دار قطنی ، کتاب الحج ج ثانی ص ٢٥٠ نمبر ٢٦٩٢)(٢) ان ابن عباس قال
حاشیہ : (الف) حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پورے زمانے میں عمرہ حلال ہے مگر تین دن میں،دسویں ذی الحجہ اور ایام تشریق کے دو دن۔دوسرے اثر میں ہے حضرت عمرفرماتے ہیں کہ جب ایام تشریق گزر جائیں تو اگلے سال تک جب چاہیں عمرہ کرتے رہیں(ب) آپۖ سے عمرہ کے بارے میں پوچھا گیا ،کیا وہ واجب ہے ؟ فرمایا نہیں،اور اگر عمرہ کرو تو زیادہ افضل ہے (ج) ّپۖ نے فرمایا حج اور عمرہ دونوں فرض ہیں ،کوئی حرج کی بات نہیں کس کو پہلے کریں حج کو یا عمرہ کو۔