لعمرتہ قبل اشھر الحج اربعة اشواط فصاعدا ثم حج من عامہ ذلک لم یکن متمتعا ]٧١٠[(١٦)واشھر الحج شوال و ذوالقعدة وعشر من ذی الحجة]٧١١[ (١٧) فان
اکثر شوط یعنی عمرے کے چار شوط شوال سے پہلے ادا کر لئے تو تمتع نہیں ہوگا۔کیونکہ عمرہ اشہر حج سے پہلے ادا ہو گیا۔اور عمرہ حج کے مہینے سے پہلے ادا ہو تو تمتع نہیں ہوتا۔اور اگر اکثر شوط یعنی چار شوط شوال میں ادا کئے تو چونکہ عمرہ حج کے مہینے میں ادا کیا اس لئے تمتع ہوگا۔
وجہ عن عبد اللہ بن عمر انہ کان یقول من اعتمر فی اشھر الحج فی شوال او ذی القعدةاو ذی الحجة قبل الحج ثم اقام بمکة حتی یدرکہ الحج فھو متمتع ان حج و علیہ ما استیسر من الھدی (الف) (موطا امام مالک ،باب ماجاء فی التمتع ص ٣٥٥مصنف ابن ابی شیبة،نمبر١٣٠٠٠)عن ابن عباس انہ سئل عن متعة الحج فقال ... اشہر الحج التی ذکر اللہ تعالی فی کتابہ شوال و ذوالقعدة وذوالحجة فمن تمتع فی ھذہ الاشھر فعلیہ دم (ب) (بخاری شریف ،باب قول اللہ عز وجل ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام ص ٢١٤ نمبر ١٥٧٢)اس دونوں اثر سے شرطوں کا پتہ چلا ،ایک یہ کہ حج کے مہینہ میں عمرہ کیا ہو اور دوسرا یہ کہ حج سے پہلے کیا ہو تب تمتع ہوگا ۔اور اگر حج کے بعد عمرہ کیا تو تمتع نہیں ہوگا اور نہ اس پر دم تمتع لازم ہوگا ۔
لغت شوط : بیت اللہ کے گرد ایک چکر لگا کر ایک طواف کرنے کو ایک شوط کہتے ہیں۔
]٧٠١[(١٦)حج کا مہینہ شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ تک ہے۔
وجہ اس کی وجہ مسئلہ نمبر ١٥ میں حدیث گزر گئی (٢) آیت میں ہے الحج اشھر معلومات فمن فرض فیھن الحج فلا رفث ولا فسوق ولا جدال فی الحج (ج) (آیت ١٩٦ سورة البقرة)اس آیت میں ہے کہ حج کے کچھ مہینے معلوم ہیں جس میں حج کا احرام باندھے ۔اور عبد اللہ بن عباس کی تفسیر یہ ہے کہ وہ مہینے شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ ہیں ۔جیسا کہ مسئلہ نمبر ١٥ میں گزرا (بخاری شریف ، باب قول اللہ عز وجل ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام ص ٢١٤ نمبر ١٥٧٢ سنن للبیھقی ، باب بیان اشھر الحج ج رابع ص٥٥٩، نمبر ٨٧١١) اس سے معلوم ہو کہ حج کے مہینے شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کی دس تاریخ تک ہیں۔ سنن بیہقی میں دس ذی الحجہ تک کی تصریح موجود ہے ۔
]٧١١[(١٧)پس اگر حج کا احرام ان مہینوں سے پہلے باندھا تو اس کا حج منعقد ہوجائے گا۔
تشریح حج کے مہینے سے پہلے یعنی شوال سے پہلے رمضان ہی میں حج کا احرام باند ھ لیا تو احرام منعقد ہو جائے گا اور حج کرنا صحیح ہوگا۔
وجہ (١) احرام حج کے لئے شرط کے درجہ میں ہے اور شرط مقدم ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔جیسے وضو نماز کے وقت سے پہلے کر سکتا ہے اسی طرح حج کا احرام حج کے مہینے سے پہلے باندھے تو باند سکتا ہے۔البتہ اتنا پہلے احرام باندھنا مکروہ ہے (٢) عن ابن عباس فی الرجل
حاشیہ : (الف) ابن عمر فرماتے ہیں کہ جس نے اشہر حج شوال ، ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں عمرہ کیا حج سے پہلے پھر مکہ مکرمہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ اس کو حج نے پالیا تو وہ تمتع کرنے والا ہے ۔اگر حج کیااور اس پر جو آسان ہو وہ ہدی لازم ہے(ب) تمتع کے بارے میں حضرت ابن عباس سے پوچھا ... اشہر حج وہ ہیں جن کو اللہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا شوال ، ذی قعدہ اور ذی الحجہ تو جس نے ان مہینوں میں تمتع کیا تو اس پر دم ہے(ج) حج کے مہینے معلوم ہیں ۔پس جس نے ان میں حج فرض کیا تو جماع کی اور فسق کی باتیں نہ کریں اور نہ حج میں جھگڑا ہے۔