انما لھم الافراد خاصة ]٧٠٨[(١٤) واذا عاد المتمتع الی بلدہ بعد فراغہ من العمرة ولم یکن ساق الھدی بطل تمتعہ]٧٠٩[ (١٥) ومن احرم بالعمرة قبل اشھر الحج فطاف لھا اقل من اربعة اشواط ثم دخلت اشھر الحج فتممھا واحرم بالحج کان متمتعا فان طاف
تفسیر ہے کہ اہل مکہ کے علاوہ کے لئے تمتع اور قران ہے۔ عن ابن عباس انہ سئل عن متعة الحج ... وابا حہ للناس غیر اھل مکة قال اللہ تعالی ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام (بخاری شریف، باب قول اللہ تعالی ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام ص ٢١٤ نمبر ١٥٧٢ مصنف ابن ابی شیبة ٤٨١ من کان لا یری علی اہل مکة متعة ،ج ثالث، ص ٤١٦، نمبر ١٥٦٩٠) فائدہ امام شافعی کے نزدیک آیت میں ذلک کا اشارہ تمتع نہیں ہے بلکہ ہدی ہے اس لئے ان کے نزدیک مکی تمتع اور قران تو کر سکتا ہے البتہ اس پر ہدی لازم نہیں ہے۔
وجہ قال یحیی سئل مالک عن رجل ... وانما الھدی او الصیام علی من لم یکن من اھل مکة (الف) (موطا امام مالک ماجاء فی التمتع ص ٣٥٦) اس اثر سے معلوم ہوا کہ مکی پر ہدی اور روزہ نہیں ہے۔
]٧٠٨[(١٤)اگر تمتع کرنے والا عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے شہر آجائے اور ہدی نہ ہانکی ہو تو اس کا تمتع باطل ہو جائے گا۔
وجہ (١) ہدی نہ ہانکی ہو تو اپنے اہل و عیال کے ساتھ ملنے اور اپنے شہر جانے سے پہلا سفر باطل ہو گیا۔ شہر کے ساتھ المام صحیح ہو گیا ۔اور ایک سفر میں عمرہ اور حج ادا نہ کیا تو تمتع اور قران نہ ہوئے اس لئے تمتع باطل ہو گیا(٢) اثر میں ہے ۔عن عطاء قال من اعتمر فی شہر الحج ثم رجع الی بلدہ ثم حج من عامہ فلیس بمتمتع،انما المتمتع من اقام ولم یرجع (ب)(مصنف ابن ابی شیبة، ٤٧ فی الرجل یعتمر فی اشہر الحج ثم یرجع ثم یحج ، ج ثالث، ص ٥٢، نمبر ١٣٠٠٦)اس اثر سے معلوم ہوا کہ عمرہ کر کے گھر چلا گیا تو تمتع فاسد ہو گیا۔
نوٹ اگر ہدی ساتھ لایا تھا اور پھر عمرہ کرکے گھر چلا گیا تو ہدی کی وجہ سے مکہ مکرمہ میں واپس آنا ضروری ہے اس لئے پہلا سفر باطل نہیں ہوا اور گھر کے ساتھ المام صحیح نہیں ہوا اس لئے تمتع باطل نہیں ہوگا۔
]٧٠٩[(١٥)جس نے حج کے مہینے سے پہلے عمرے کا احرام باندھا اور چار شوط سے کم طواف کیا پھر حج کا مہینہ داخل ہوا اور عمرہ کو پورا کیا ار حج کا احرام باندھا تو تمتع کرنے والا ہوگا۔اور اگر حج کے مہینے سے پہلے عمرے کا طواف چار شوط کیا یا اس سے زیادہ کیا پھر اسی سال حج کیا تو یہ تمتع کرنے والا نہیں ہوگا ۔
تشریح تمتع ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں،ایک یہ کہ حج سے پہلے عمرہ کیا ہو،اور دوسری شرط یہ ہے کہ عمرہ حج کے مہینے میں ادا کیا ہو ۔حج کا مہینہ پہلی شوال سے دس ذی الحجہ تک ہے۔دوسرا سول یہ ہے کہ اکثر شوط کا اعتبار ہے تو سات میں اکثر شوط چار ہیں اور اقل شوط تین ہیں ۔پس اگر
حاشیہ : (الف) حضرت یحیی سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا ... فرمایا ہدی یا روزہ اس پر ہے جو اہل مکہ میں سے نہ ہو،یعنی میقات کے اندر میں سے نہ ہو (ب)حضرت امام عطا نے فرمایا جس نے شوال،ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں عمرہ کیا پھر اپنے اہل کی طرف لوٹا پھر اسی سال حج کیا تو اس پر ہدی نہیں ہے۔ ہدی اس پر ہے جس نے اشہر حج میں عمرہ کیا پھر مکہ میں حج تک ٹھہرا رہا پھر حج کیا۔