یوم الترویة ]٧٠٥[(١١) فان قدم الاحرام قبلہ جاز وعلیہ دم التمتع]٧٠٦[ (١٢) فاذا حلق یوم النحر فقد حل من الاحرامین]٧٠٧[ (١٣) ولیس لاھل مکة تمتع وولا قران
گا بلکہ احرام ہی کی حالت میں رہے گا اور دو بارہ آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے گا۔
وجہ حضورۖ اپنے ساتھ ہدی لے گئے تھے تو درمیان میں حلال نہیں ہوئے تھے۔ عن ابن عمر قال قال تمتع رسول اللہ فی حجة الوداع بالعمرة الی الحج واھدی فساق معہ الھدی من ذی الحلیفة وبدأ رسول اللہ فاھل بالعمرة ثم اھل بالحج فتمتع الناس مع النبی ۖ بالعمرة الی الحج فکان من الناس من اھدی فساق الھدی ومنھم من لم یھد فلما قدم النبی ۖ مکة قال للناس، من کان منکم اھدی فانہ لا یحل من شیء حرم منہ حتی یقضی حجہ (الف) (بخاری شریف ، باب من ساق البدن معہ ص ٢٢٩ نمبر ١٦٩١) اس حدیث میں ہے کہ آپۖ نے ان لوگوں کو حکم دیا جو ہدی ساتھ لے گئے تھے کہ عمرہ اور حج کے احرام سے اکٹھے دسویں تاریخ کو حلال ہوں۔
]٧٠٥[(١١)پس اگر آٹھ تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھ لے تو جائز ہے اور اس پر تمتع کا دم لازم ہوگا ۔
تشریح اوپر یہ گزرا کہ آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے لیکن اگر آٹھ تاریخ سے پہلے حج کا احرام باندھے تو جائز ہے بلکہ افضل ہے کیونکہ عبادت کی طرف جلدی کررہا ہے ۔
]٧٠٦[(١٢)پس جب دسویں ذی الحجہ کو حلق کرائے تو دونوں احراموں سے حلال ہو جائے گا۔
تشریح چونکہ عمرے کا احرام نہیں کھولا تھا اور حج کا احرام باندھ لیا تھا اس لئے دسویں تاریخ کو دونوں احراموں سے حلال ہو گا۔
وجہ اس کی دلیل مسئلہ نمبر ١٠ میں گزر گئی ہے۔ ثم لم یحلل من شیء حرم منہ حتی یقضی حجہ نحرھدیة یوم النحر (بخاری شریف نمبر ١٦٩١)
]٧٠٧[(١٣)اہل مکہ کے لئے نہ تمتع ہے اور نہ قران ہے صرف ان کے لئے حج افراد ہے۔
وجہ (١) آیت میں ہے ذلک لمن لم یکن اھلہ حاضری المسجد الحرام (ب) (آیت ١٩٦ سورة البقرة٢) اس آیت میں ذلک کا اشارہ تمتع اور اس کے تحت میں قران ہے۔جس کا مطلب یہ ہے کہ تمتع اور قران اس کے لئے ہے جو مسجد حرام کے قریب نہ ہو یعنی مکی نہ ہو۔ اس لئے حنفیہ کے نزدیک مکی اور میقات کے اندر والوں کے لئے تمتع اور قران نہیں ہے (٢) ایک سفر میں حج اور عمرہ کرکے فائدہ اٹھانے کو تمتع کرنا کہتے ہیں۔ لیکن سفر ہی نہ ہو تو فائدہ اٹھانا کیا ہوگا۔اس لئے اہل مکہ کے لئے تمتع اور قران نہیں ہے۔حضرت عبد اللہ ابن عباس کی یہی
حاشیہ : (الف) حضورۖ نے حجة الوداع میں عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا اور ہدی ہانکی اور ذی الحلیفہ سے ہدی ہانکی۔اور حضورۖ نے شروع کیا پس عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا احرام باندھا اور لوگوں نے حضور کے ساتھ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا۔پس لوگوں میں سے کچھ نے ہدی کو ہانکا،اور ان میں سے کچھ نے ہدی نہیں ہانکا۔پس جب حضور مکہ آئے تو لوگوں سے کہا کہ تم میں سے جس نے ہدی ہانکا اس سے کوئی چیز حلال نہیں ہوگی جو حرام ہوئی ہے جب تک کہ حج پورا نہ ہو جائے(ب) تمتع اس کے لئے ہے جو مسجد حرام کے قریب نہ ہو۔