الثلث(١٤) ویستحب للمتوضی ان ینوی الطھارة۔
نفسہ غفر لہ ما تقدم من ذنبہ (الف) (بخاری شریف ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا ص ٢٧ نمبر ١٥٩ ابوداؤد شریف ، باب الوضوء ثلاثا ثلاثا ص ٢٠ نمبر ١٣٥)اس حدیث میں ہے کہ اعضاء تین تین مرتبہ دھویا،جس سے معلوم ہوا کہ تین تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔
( مستحبات وضو کا بیان )
ضروری نوٹ : مستحب اس کو کہتے ہیں کہ کرنے پر ثواب دیا جائے اور نہ کرنے پر کوئی عتاب نہ ہو۔ مصنف نے نیت کرنا، پورے سرکا مسح کرنا، ترتیب سے وضوء کرنااور پے درپے وضو کرنا مستحب لکھا ہے۔ حالانکہ دوسری کتابوں میں ان کو سنت کہا ہے(کما فی الہدایہ) اور احادیث سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ چار باتیں سنت ہیں۔ متقدمین کے یہاں سنت کو بھی مستحب کہہ دیا کرتے تھے اس اعتبار سے مصنف نے ان چاروں کو مستحب کہا ہے۔ البتہ دائیں جانب سے شروع کرنا اور گردن کا مسح کرنا مستحب ہے۔
(١٤) وضو کرنے والے کے لئے سنت ہے کہ پاکی کی نیت کرے ۔
وجہ سنت ہونے کی وجہ یہ حدیث ہے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ علی المنبر یقول سمعت رسول اللہ ۖ یقول انما الاعمال بالنیات وانمالکل امرء ما نوی (ب)(بخاری شریف ، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ ۖ ص ٢ نمبر١)اعمال کے ثواب کا دارومدار یا اعمال کے صحیح ہونے کا دارومدار نیت پر ہے۔ بغیر نیت کے وضو کا ثواب نہیں ہوگا۔ اس لئے وضو میں وضو کی نیت کرنا سنت ہے۔ وضو میں نیت کرنا فرض اس لئے نہیں ہے کہ پانی کو خود بخود پاک کرنے والا قرار دیا ہے چاہے نیت کرے یا نہ کرے۔
دلیل (ا) آیت ہے انزلنا من السماء ماء طہورا (آیت ٤٨ سورة الفرقان ٢٥)(٢) حدیث میں ہے قال رسول اللہ ۖ ھوالطہور ماء ہ الحل میتتہ (ج) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی ماء البحر انہ طہور ص ٢١ نمبر ٦٩) جب پانی بغیر نیت کی قید کے خود بخود پاک کرنے والا ہے تو نیت کرنا ضروری نہیں رہا۔ البتہ حدیث بالا کی وجہ سے سنت رہے گا(٣) حضرت عمر نے قرآن کریم چھونے کے لئے کفر کی حالت میں وضو کیا ہے ۔اور کفر کی حالت میں نیت کا اعتبار نہیں اس لئے ان کا وضو کرنا بغیر نیت کے درست رہا۔ معلوم ہوا کہ وضو کے لئے نیت کی شرط نہیں ہے ۔
نوٹ نماز ، روزہ ، زکوة اور حج وغیرہ عبادت مقصودہ میں اصل مقصد ثواب ہے اس لئے بغیر نیت کے یہ عبادات ادا نہ ہوںگی۔ وہاں نیت کرنا فرض ہے۔
فائدہ امام شافعی کے نزدیک حدیث انما الاعمال بالنیات کی وجہ سے وضو میں بھی نیت کرنا فرض ہے (موسوعة امام شافعی ج اول،باب النیة فی الوضوئ)
حاشیہ : (الف)عثمان بن عفان کو دیکھا کہ برتن منگوایا پھر تین مرتبہ اپنی ہتھیلیوں پر پانی ڈالا اور اس کو دھویا ۔پھر دائیں ہاتھ کو برتن میں داخل کیا اور مضمضہ کیا اور استنشاق کیا۔ پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا پھر سر پر مسح کیا پھر دونوں پاؤں کو تین مرتبہ ٹخنوں تک دھویا ۔پھر کہا کہ حضو ر ۖ نے فرمایا جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھے اور دل میں ادھر ادھر کا کوئی خیال نہ آئے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیںگے(ب)آپۖ نے فرمایا اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔ہر آدمی کے لئے وہ ہے جو اس نے نیت کی(ج)آپۖ نے فرمایا سمندر کا پانی پاک ہے اور اس کا مردہ (مچھلی) حلال ہے۔