فی فرض الغسل عند علمائنا الثلثة خلافا لزفر(٤) والمفروض فی مسح الرأس مقدار
ھکذا رأیت رسول اللہ ۖ یتوضأ وقال قال رسول اللہ ۖ انتم الغر المحجلون یوم القیامة من اسباغ الوضوء ممن استطاع منکم فلیطل غرتہ وتحجیلہ(١لف)(مسلم شریف ، باب استحباب اطالة الغرة والتحجیل فی الوضوء ،ص، ١٢٦ نمبر ٢٤٦ ) اس حدیث میں حضرت ابو ہریرہ نے بازو اور پنڈلی کو وضوء میں دھویا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آیت میں مرفق اور کعبین دھونے میں داخل ہیں۔ یہ حدیث آیت کی تفسیر ہے(٢)عن جابر بن عبد اللہ قال کان رسول اللہ ۖ اذا توضأ ادار الماء علی مرفقیہ (دار قطنی ، باب وضوء رسول اللہ ۖ، ج اول ، ص ٨٦، نمبر ٢٦٨ سنن للبیہقی ، باب ادخال المرفقین فی الوضوئ،ج اول ، ص ٩٣، نمبر ٢٥٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کہنیاں دھونے میں داخل ہیں (٣) انگلی سے لیکر مونڈھے تک کو ہاتھ کہتے ہیں اس لئے اگر کہنیوں کی قید نہ لگاتے تو مونڈھے تک دھونا فرض ہوتا اس لئے کہنیوں تک دھونے کے لئے کہا تو کہنیوں سے آگے ساقط ہو گیا۔ اور قاعدہ یہ ہے کہ جو عضو آگے کو ساقط کرنے کے لئے آئے وہ اس حکم میں داخل ہوتا ہے۔ اس لئے کہنی دھونے کے حکم میں داخل رہے گی۔ اس طرح رجل (پاؤں) ران تک کو کہتے ہیں ۔ ٹخنہ تک کی قید لگا کر ٹخنہ سے اوپر کو ساقط کیا۔ لیکن خود ٹخنہ دھونے کے حکم میں داخل رہے گا ۔
اصول جنس ایک ہو تو غایت مغیا میں داخل ہوتا ہے ۔
فائدہ امام زفر فرماتے ہیں کہ کہنیاں اور ٹخنے دھونے میں داخل نہیں ۔یعنی اگر کہنیوں اور ٹخنوں تک دھویا اور خود کہنیوں اور ٹخنوں کو نہیں دھویا تو وضوء ہو جائیگا۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ اتموا الصیام الی اللیل یعنی روزے میں رات داخل نہیں ہے تو جس طرح الی کے مابعد رات ہے وہ روزے میں داخل نہیں ہے اسی طرح الی المرافق اور الی الکعبین میں۔ الی کے مابعد مرافق اور کعبین دھونے میں داخل نہیں ہونگے۔ ہمارا جواب یہ ہے کہ یہاں لیل دن کے جنس میں سے نہیں ہے۔ دن الگ جنس ہے اور رات الگ جنس ہے۔ اس لئے رات جو الی کے مابعد ہے وہ دن میں داخل نہیں ہوگی۔ کیونکہ قاعدہ ہے کہ جنس ایک نہ ہو تو غایت مغیا میں داخل نہیں ہوتا ہے۔
(٤) اور فرض سر کے مسح میں پیشانی کی مقدار ہے اور وہ چوتھائی سر ہے۔ کیونکہ مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ۖ قوم کے کوڑے پر تشریف لائے اور پیشاب کیا اور وضوء فرمایا اور پیشانی پر مسح فرمایا اور دونوں موزوں پر مسح فرمایا۔
وجہ مغیرہ بن شعبہ کی یہ حدیث مسلم شریف میں باب المسح علی الخفین کے تحت ذکر کی گئی ہے(ص ١٣٤ نمبر ٢٧٤) اسی صفحہ پر دوسری حدیث ہے ان النبی ۖ مسح علی الخفین ومقدم رأسہ وعلی عمامتہ(مسلم شریف، باب المسح علیالناصیة والعمامة ص ١٣٤ نمبر ٢٧٤ ابوداؤد شریف، باب المسح علی الخفین،ص ٢٢، نمبر ١٥٠)) جب سر کے صرف اگلے حصے پر مسح کیا تو پتہ یہ چلا کہ پورے سر کا مسح کرنا فرض نہیں ہے،
حاشیہ : (الف)میں نے حضرت ابو ہریرہ کو دیکھا کہ وہ وضو کر رہے تھے ۔پس اپنے چہرے کو دھویا تو پورا وضوء کیا پھر دائیں ہاتھ کو دھویا یہاں تک کہ بازو کو دھونا شروع کر دیا۔ پھر بائیں ہاتھ کو دھویا یہاں تک کہ بازو کو دھونا شروع کر دیا۔پھر سر پر مسح کیا ۔پھر دائیں پاؤں کو دھویا یہاں تک کہ پنڈلی شروع کردی پھر بائیں پاؤں کو دھویا یہاں پنڈلی کو دھونا شروع کردیا۔پھر کہامیں نے اس طرح حضور ۖ کو وضوء کرتے دیکھا۔ آپ نے فرمایا تم لوگ قیامت کے روز چمکدار چہرے اور ہاتھ والے ہونگے وضوء مکمل کرنے کی وجہ سے۔پس تم میں سے جو چاہے وہ اپنے چہرے کی چمک اور پاؤں کی چمک کو زیادہ کرے۔