]٥٣٦[ (٢٤) وانما یفرق صدقة کل قوم فیھم الا ان یحتاج ان ینقلھا الانسان الی قرابتہ او الی قوم ھم احوج الیہ من اھل بلدہ۔
جس سے معلوم ہوا کہ دوسرے شہر کی طرف زکوة منتقل کرنا مکروہ ہے۔
]٥٣٦[(٢٤)ہر قوم کا صدقہ اسی میں تقسیم کیا جائے۔مگر یہ کہ محتاج ہو کہ انسان اپنے رشتہ داروں کی طرف منتقل کرے، یا ایسی قوم کی طرف منتقل کرے جو اس شہر کے لوگوں سے زیادہ محتاج ہو۔
تشریح بہتر تو یہی ہے کہ جس شہر کے مالداروں سے زکوة لی اسی شہر کے غرباء پر تقسیم کر دی جائے۔لیکن اگر دوسرے شہر میں ان کے رشتہ دار ہیں تو دوسرے شہر میں رشتہ داروں کی طرف زکوة منتقل کر سکتے ہیں۔یا دوسرے شہر کے لوگ زیادہ محتاج ہیں تو پھر وہاں منتقل کی جا سکتی ہے ۔ وقال النبی ۖ لہ اجران اجر القرابة واجر الصدقة(الف) (بخاری شریف، باب الزکوة علی الاقارب ص ١٩٦ نمبر ١٤٦١ ترمذی شریف، باب ماجاء فی الصدقة علی ذی القرابة ص ١٤٢ نمبر ٦٥٨)
نوٹ دوسرے شہر کے لوگ زیادہ محتاج نہ بھی ہوں اور دے دے تو زکوة ادا ہو جائے گی، کیونکہ وہ لوگ فقراء ہین اور مصرف ہیں البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا ان کے لئے دو قسم کے اجر ہیں رشتہ داری کا اجر اور صدقے کا اجر۔