]٥٣٣[(٢١) ولا یجوز دفع الزکوة الی من یملک نصابا من ای مال کان]٥٣٤[ (٢٢) ویجوز دفعھا الی من یملک اقل من ذلک وان کان صحیحا مکتسبا]٥٣٥[ (٢٣) ویکرہ نقل الزکوة من بلد الی بلد آخر۔
]٥٣٣[(٢١) زکوة کا دینا جائز نہیں ہے اس آدمی کو جو نصاب کا مالک ہو چاہے جس مال کا ہو۔
تشریح اپنی حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو اور کوئی بھی مال نصاب زکوة کے برابر ہو تو اس کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔
وجہ کیونکہ وہ غنی اور مالدار ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ غنی کو دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی ۔عن عطاء بن یسار ان رسول اللہ ۖ قال لا تحل الصدقةلغنی الا لخمسة (ابو داؤد شریف نمبر ١٦٣٥١٦٣٤)
]٥٣٤[(٢٢)اور جائز ہے زکوة دینا ایسے آدمی کو جو نصاب سے کم کا مالک ہو چاہے وہ تندرست ہو اور کمانے والا ہو۔
تشریح جو آدمی نصاب سے کم کا مالک ہو وہ شریعت کی نگاہ میں غنی نہیں ہے بلکہ وہ فقیر ہے اس لئے اس کو زکوة دی جا سکتی ہے۔ چاہے وہ تندرست ہو اور کما کر کھا سکتا ہو۔ کیونکہ فی الحال وہ فقیر ہے اور فقیر کے لئے زکوة جائز ہے۔
وجہ سمعت حمادا یقول من لم یکن عندہ مال یبلغ فیہ الزکوة اعطی من الزکوة (الف) (مصنف ابن ابی شیبة٨١ من قال لا تحل لہ الصدقة اذا ملک خمسین درھما ج ثانی، ص ٤٠٤،نمبر ١٠٤٣٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جو نصاب کا مالک نہ ہو اس کو زکوة دی جا سکتی ہے نوٹ البتہ ایک آدمی کو اتنا روپیہ دے کہ وہ خود صاحب نصاب ہو جائے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
وجہ اثر میں ہے عن عامر قال اعط من الزکوة ما دون ان یحل علی من تعطیہ الزکوة (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٠ ماقالوا فی الزکوة قدر ما یعطی منھا ج ثانی ص٤٠٣،نمبر ١٠٤٣٠)اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک آدمی کو اتنی زکوة نہ دے کہ خود اس پر زکوة واجب ہو جائے لغت مکتسبا : کسب سے اسم فاعل ہے، کام کرنے والا۔
]٥٣٥[(٢٣)مکروہ ہے زکوة کو ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف منتقل کرنا۔
وجہ (١) حدیث میں ہے کہ مالداروں سے زکوة لو اور انہیں لوگوں کے غرباء پر تقسیم کردو۔ اس لئے زکوة کو پہلے اسی شہر کے غرباء پر تقسیم کی جائے گی۔ وہاں سے بچے تب دوسرے شہر کے غرباء کو دیں۔ البتہ اگر دوسرے شہر کے غرباء اس شہر سے زیادہ محتاج ہوں تو اس شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہر کے غرباء پر زکوة تقسیم کی جا سکتی ہے (٢) حدیث میں ہے عن ابن عباس قال قال رسول اللہ لمعاذ بن جبل حین بعثہ الی الیمن ... قد افترض علیھم صدقة توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم (ج) (بخاری شریف ، باب اخذ الصدقة من الاغنیاء وترد فی الفقراء حیث کانوا ص ٢٠٣٢٠٢ نمبر ١٤٩٦) اس حدیث میں ہے کہ اس شہر کے مالداروں سے لیں اور انہیں کے غرباء پر تقسیم کر دیں۔
حاشیہ : (الف) حضرت حماد نے فرمایا جس کے پاس اتنا مال نہ ہو جس میں زکوة واجب ہو تو اس کو زکوة کے مال سے دیا جائے گا(ب) حضرت عامر نے فرمایا کہ زکوة کی رقم اتنی کم دو کہ جس کو زکوة دی اس پر زکوة واجب نہ ہو جائے(ج) آپۖ نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے ہوئے فرمایا ... ان لوگوں پر زکوة فرض کی گئی ہے۔ان کے مالداروں سے لی جائے اور انہیں کے فقراء پر تقسیم کردی جائے۔