محمد رحمھما اللہ تعالی اذا دفع الزکوة الی رجل یظنہ فقیرا ثم بان انہ غنی او ھاشمی او کافر او دفع فی ظلمة الی فقیر ثم بان انہ ابوہ او ابنہ فلا اعادة علیہ ]٥٣١[(١٩) وقال ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی وعلیہ الاعادة]٥٣٢[ (٢٠) ولو دفع الی شخص ثم علم انہ عبدہ او مکاتبہ لم یجز فی قولھم جمیعا۔
وجہ ان معن بن یزید حدثہ ... وکان ابی یزید اخرج دنانیر یتصدق بھا فوضعھا عند رجل فی المسجد فجئت فاخذتھا فاتیتہ بھا فقال واللہ ما ایاک ارددت فخاصمتہ الی رسول اللہ فقال لک مانویت یا یزید ولک ما اخذت یا معن (الف)(بخاری شریف، باب اذا تصدق علی ابنہ وھو لایشعر ص ١٩١ نمبر ١٤٢٢) اس حدیث میں باپ کی زکوة بھول سے بیٹے کو پہنچ گئی پھر بھی آپۖ نے باپ سے فرمایا کہ تم نے جو نیت کی ہے اس کی ادائیگی ہو جائے گی (٢) عن الحسن فی الرجل یعطی زکوتہ الی فقیر ثم یتبین لہ انہ غنی قال اجزی عنہ (ب) (مصنف ابن ابی شیبة ٩٧ ماقالوا فی الرجل یعطی زکوتہ لغنی وھو لایعلم ج ثانی ص٤١٣،نمبر١٠٥٤٣) اس اثر سے معلوم ہوا کہ بھول سے غریب سمجھ کر مالدار کو زکوة دے تو زکوة کی ادائیگی ہو جائے گی۔
]٥٣١[(١٩)امام ابویوسف نے فرمایا اس پر زکوة کو لوٹانا ہے۔
تشریح یعنی بھول کر غیر مستحق کو دی دی اور بعد میں ظاہر ہوا تو امام ابو یوسف کے نزدیک زکوة کی ادائیگی نہیں ہوئی،دو بارہ ادا کرنی ہوگی۔
وجہ (١) غریب کو مالک بنانا ضروری تھا اور وہ نہیں ہوا اور مستحْ تک زکوة نہیں پہنچی اس لئے زکوة دوبارہ ادا کرنی ہوگی (٢) عن ابراھیم فی الرجل یعطی زکوتہ الغنی وھو لایعلم قال لایجزیہ (ج) (مصنف ابن ابی شیبة ٩٥ ماقالوا فی الرجل یعطی زکوتہ لغنی وھو لا یعلم ج ثانی ص ٤١٣،نمبر١٠٥٤٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ زکوة بھول کر غیر مستحق کو دیدی تو زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔
اصول زکوة مستحق کو نہ پہنچے چاہے بھول کر بھی ہو تو زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔
]٥٣٢[(٢٠)اور اگر زکوة کسی شخص کو دی پھر معلوم ہوا کہ کہ وہ اس کا غلام ہے یا اس کا مکاتب ہے تو بالاتفاق جائز نہیں ہوگی۔
وجہ اپنے غلام یا مکاتب کے ہاتھ میں زکوة گئی تو گویا کہ اپنے ہی ہاتھ میں رہی کیونکہ غلام کی ملکیت خود اپنی ملکیت ہے۔ اس لئے گویا کہ ایک جیب سے نکال کر دوسری جیب میں رکھی۔اس لئے زکوة کی ادائیگی بالاتفاق نہیں ہوگی۔
اصول غلام کی ملکیت خود مولی کی ملکیت ہے۔
حاشیہ : (الف) معن بن یزید نے بیان کیا ... میرے باپ یزید نے کچھ دنانیر صدقہ کے لئے نکالے اور اس کو مسجد میں ایک آدمی کے پاس رکھا تو میں گیا اور اس زکوة کو لے لیا۔ اس کو لیکر آیا تو باپ نے کہا خدا کی قسم تم کو دینے کی نیت نہیں تھی۔ تو میں والد صاحب کو حضورۖ کے پاس لے گیا۔ تو آپۖ نے فرمایا اے یزید تم نے جو نیت کی وہ مل گئی اور اے معن تم نے جو لیا وہ ٹھیک ہے (ب) ایک آدمی کے بارے میں حضرت حسن سے پوچھا کہ اس کو فقیر سمجھ کر زکوة دی پھر پتہ چلا کہ وہ مالدار ہے تو فرمایا کہ کافی ہو جائے گا(ج) حضرت ابراہیم سے پوچھا گیا ایک آدمی کے بارے میں کہ زکوة مالدار کو دیدے اور وہ جانتا نہیں ہے، حضرت ابراہیم نے فرمایا کہ اس کو کافی نہیں ہوگی۔