]٥٢٧[(١٥) ولا یدفع الی مکاتبہ ولا مملوکہ]٥٢٨[ (١٦) ولا مملوک غنی ولا ولد
وولدہ احق من تصدقت بہ علیھم فقال رسول اللہ صدق ابن مسعود زوجک وولدک احق من تصدقت بہ علیھم (الف)(بخاری شریف ، باب الزکوة علی الاقارب ص ١٩٧ نمبر ١٤٦٢) اس حدیث میں آپ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود کی بیوی سے فرمایا کہ تمہاری اولاد اور تمہارا شوہر تمہارے صدقے کا زیادہ حقدار ہے یعنی زکوة کا، اس لئے بیوی شوہر کو زکوة دے تو جائز ہے۔ امام اعظم اس کا جواب دیتے ہیں کہ یہ صدقۂ نافلہ کے بارے میں ہے جو ہم بھی جائز کہتے ہیں۔
]٥٢٧[(١٥) اور زکوة نہ دے اپنے مکاتب غلام کو اور اپنے مملوک کو۔
وجہ (١)مکاتب نے جب تک مال کتابت ادا کیا نہ ہو وہ غلام ہی باقی رہتا ہے۔ اور غلام کا سارا مال بلکہ اس کی جان بھی مولی کی ہوتی ہے۔ اس لئے اپنے مکاتب اور اپنے غلام کو زکوة کا مال دینا گویا کہ خود کے پاس رکھ لینا ہے۔ اس لئے اپنے مولی اور اپنے مملوک کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی (٢) پہلے ایک اثر گزر چکا ہے جس میں یہ تھا عن الثوری قال ولا تعطیھا مکاتبک (ب) (مصنف عبد الرزاق ، باب لمن ا؛زکوة ج رابع ص ١١٣ نمبر ٧١٧٠) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اپنے مکاتب کو زکوة مت دو اس لئے کہ وہ اس کا غلام ہے۔اس لئے اپنے غلام کو زکوة دینا جائز نہیں ہوگا۔
]٥٢٨[(١٦)اور مالدار کے ملوک کو اور مالدار کی اولاد کو زکوة نہ دے جب کہ وہ چھوٹے ہوں۔
وجہ پیچھے گزر چکا ہے کہ مملوک کا مال مولی کا مال ہوتا ہے۔ اس لئے مالدار کے مملوک کو زکوة دی تو وہ مالدار مولی کے ہاتھ میں پہنچ جائے گی اور مالدار کو زکوة دینا جائز نہیں اس لئے مالدار کے مملوک کو بھی زکوة دینا جائز نہیں۔ ہاں غریب آدمی کا مملوک ہوتو اس کو دینا جائز ہے۔کیونکہ وہ غریب مولی کے ہاتھ میں پہنچے گی۔ اسی طرح مالدار آدمی کا چھوٹا بچہ مالدار کی کفالت میں ہوتا ہے اور گویا کہ باپ ہی اس کے مال کا مالک ہوتا ہے اس لئے مالدار کے بچے کے ہاتھ میں زکوة دینا گویا کہ مالدار کے ہاتھ میں مال دینا ہے۔ اس لئے مالدار کے چھوٹے بچے کو زکوة دینا جائز نہیں ہے (٢) چھوٹا بچہ باپ کی مالداری کی وجہ سے مالدار شمار کیا جاتا ہے اس لئے بھی مالدار کے بچے کو زکوة دینا جائز نہیں ہے ۔ مالدار کے لئے زکوة جائز نہیں ہے اس کے لئے یہ حدیث ہے عن عطاء بن یسار ان رسول اللہ ۖ قال لا تحل الصدقة لغنی الا لخمسة (١)لغاز فی سبیل اللہ(٢)او لعامل علیھا(٣) او لغارم (٤) او لرجل اشتراھا بمالہ (٥) او لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فاھدھا المسکین للغنی (ابو داؤد شریف ، باب من یجوز لہ اخذ الصدقة وھو غنی ص ٢٣٨ نمبر ١٦٣٥١٦٣٤)
نوٹ بڑے بچے باپ کے تحت نہیں ہوتے اس لئے اگر باپ مالدار ہو اور اس کا بڑا بچہ غریب ہو تو اس کو زکوة دے سکتے ہیں۔اس لئے کہ
حاشیہ : (الف) ابو سعید خدری سے روایت ہے ... کہ عبد اللہ بن مسعود کی بیوی کہنے لگی اے اللہ کے نبی ! آپۖ نے آج صدقے کا حکم دیا۔اور میرے پاس کچھ زیورات ہیں تو میں چاہتی ہوں کہ اس کو صدقہ کروں ۔عبد اللہ بن مسعود کا گمان ہے کہ وہ اور ان کی اولاد زیادہ حقدار ہے کہ میں ان پر صدقہ کروں۔ آپۖ نے فرمایا عبد اللہ بن مسعود صحیح کہتے ہیں ۔تمہارا شوہر اور تمہاری اولاد زیادہ حقدار ہیں آپ ان پر صدقہ کریں(ب)حضرت ثوری نے فرمایااپنے مکاتب کو زکوة مت دو۔