]٥٢٥[(١٣) ولا یدفع المزکی زکوتہ الی ابیہ وجدہ وان علا ولا الی ولدہ وولد ولدہ وان سفل ولا الی امہ وجداتہ وان علت ولا الی امرأتہ]٥٢٦[ (١٤) ولا تدفع المرأة الی زوجھا عند ابی حنیفة رحمہ اللہ تعالی وقالا تدفع الیہ۔
وجہ حدیث میں ہے عن ابی سعید قال قال رسول اللہ لا تحل الصدقة لغنی الا فی سبیل اللہ او ابن السبیل او جار فقیر یتصدق علیہ فیھدی لک او یدعوک (الف) (ابو داؤد شریف ،باب من یجوز لہ اخذ الصدقة وھو غنی ص ٢٣٨ نمبر ١٦٣٧) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مالدار کے لئے عام حالات میں زکوة لینا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ وہ مجاہد ہو یا مسافر ہو۔
]٥٢٥[(١٣) زکوہ دینے والا زکوة نہ دے اپنے باپ کو، اپنے دادا کو اگر چہ اوپر تک ہو، اپنی اولاد کو نہ اولاد کی اولاد کو اگرچہ نیچے تک ہو، نہ اپنی ماں کو نہ اپنی دادی کو اگر چہ اوپر تک ہو،اور نہ اپنی بیوی کو۔
وجہ (١) ان لوگوں کے ساتھ اتنا گہرا رابطہ ہوتا ہے کہ ان کا نان و نفقہ بھی اپنے ہی ذمہ ہوتا ہے۔ اس لئے ان لوگوں کو دینا گویا کہ زکوة کا مال اپنے ہی پاس رکھ لینا ہے۔ اس لئے زکوة کا مال ان لوگوں کو دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی(٢) اثر میں ہے کہ جن لوگوں کی کفالت کرتا ہو اور اصول و فروع میں سے ہو ں ان کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی عن ابن عباس قال لا بأس ان تجعل زکوتک فی ذوی قرابتک مالم یکونوا فی عیالک (ب) ( مصنف ابی ابی شیبة ٩٦ ماقالوا فی الرجل یدفع زکوتہ الی قرابتہ ج ثانی ص٤١٢، نمبر١٠٥٣١ مصنف عبد الرزاق ،باب لمن الزکوة ج رابع ص ١١٢نمبر ٧١٦٤) اس اثر سے معلوم ہوا کہ جو قریب کے رشتہ دار ہوں اور اس کی قدرتی طور پر کفالت بھی کرتا ہو تو اس کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی نوٹ باپ ، دادا ، ماں ، دادی اصول ہیں اور بیٹا ،پوتا فروع ہیں۔
]٥٢٦[(١٤)اور زکوة نہ دے عورت اپنے شوہر کو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اور صاحبین نے فرمایا کہ شوہر کو دے۔
وجہ (١) امام اعظم کی دلیل اوپر کے مسئلہ نمبر ١٣ کا اثر ہے کہ جو کفالت میں ہو ان کو زکوة نہیں دے سکتے۔ اور بیوی شوہر کی کفالت میں ہے اس لئے زکوة اس پر ہی لوٹ آئے گی۔ اس لئے اس کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی(٢) شوہر کو دینے سے نان و نفقہ کے طور پر مال خود بیوی پر لوٹ آئے گا۔اور بعد میں خود بیوی اس مال سے کھائے گی۔ اس لئے گویا کہ اپنی ہی جیب میں زکوة کا رکھنا ہوا۔ اس لئے شوہر کو زکوة کا مال دینا جائز نہیں۔ البتہ نفلی صدقہ شوہر کو دے سکتی ہے۔ اور صاحبین فرماتے ہیں کہ بیوی اپنی زکوة شوہر کو دے سکتی ہے۔
وجہ (١) شوہر بیوی کے عیال میں نہیں ہے۔ یعنی بیوی پر شوہر کا نان و نفقہ لازم نہیں ہے (٢) حدیث میں ہے عن ابی سعید الخدری ... قالت یا نبی اللہ انک امرت الیوم بالصدقة وکان عندی حلی لی فاردت ان اتصدق بہ فزعم ابن مسعود انہ
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا زکوة حلال نہیں ہے مالدار کے لئے مگر اللہ کے راستے میں ہو یا مسافر ہو یا فقیر پڑوسی ہو اس پر صدقہ کیا جائے تو وہ آپ کو ہدیہ دے یا آپ کو کھلائے پلائے تو حلال ہے(ب) ابن عباس نے فرمایا ہاں جب کہ وہ رشتہ دار اس کے عیال میں نہ ہوں۔