ولا یکفن بھا میت ولا یشتری بھا رقبة یعتق ]٥٢٤[(١٢ )ولا تدفع الی غنی۔
مستحق زکوة کو مالک نہیں بنایا تو زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ مذکورہ صورتوں میں کسی غریب کو مالک بنانا نہیں ہوتا ہے اس لئے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ مثلا مسجد بنانے میں کسی غریب کو مالک بنانا نہیں پایا گیا۔ اسی طرح میت کو کفن دینے میں میت کو مالک بنانا نہیں ہوگا۔کیونکہ مرنے کے بعد اس کو مالک بنانا کیسے ہوگا؟ اسی طرح غلام کو خریدنے میں غلام کو مالک بنانا نہیں ہوتا ہے۔کیونکہ اس کے مالک کو مالک بنانا ہوتا ہے۔اور مالک مالدار ہے اس لئے غلام خرید کر آزاد کرنے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی (٢)عن ابن عباس قال قال رسول اللہ ۖ لمعاذ بن جبل ... ان اللہ قد افترض علیھم صدقة توخذ من اغنیائھم فترد علی فقرائھم (الف) (بخاری شریف ، باب اخذ الصدقة من الاغنیاء وترد فی الفقراء حیث کانوا ص ٢٠٢ ٢٠٣ نمبر ١٤٩٦) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان مالداروں سے لیکر اسی کے یعنی مسلمان غرباء پر تقسیم کی جائے گی۔اس لئے غیر مسلم کو زکوة دینا جائز نہیں ہے (٣) اس اثر سے اوپر کے سارے مسئلوں کی تائید ہوتی ہے۔ عن الثوری قال الرجل لایعطی زکوة مالہ من یحبس علی النفقة من ذوی ارحامہ ولا یعطیھا فی کفن میت ولا دین میت ولا بناء مسجد ولا شراء مصحف ولا یحج بھا ولا یحج بھا ولا تعطیھا مکاتبک ولا تتباع بھا نسمة تحررھا ولا تعطیھا فی الیھود والنصاری ولا تستأجر علیھا منھا یحملھا لیحملھا من مکان الی مکان(ب) مصنف عبد الرزاق ،باب لمن الزکوة ج رابع ص ١١٣ نمبر ٧١٧٠ مصنف ابن ابی شیبة ،٧ ماقالوا فی الصدقة یعطی منھا اہل الذمة ج ثانی، ص ٤٠٢،نمبر١٠٤١٠) اس حدیث سے اوپر کے تمام مسئلوں کی تائید ہوتی ہے(٤) آیت میں انما کے حصر کے ساتھ آٹھ قسموں کا تذکرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انہیں آٹھ قسموں کو زکوة دینے سے ادائیگی ہوگی ۔
اصول مسلمان غریب کو مالک بنانا ضروری ہے۔
نوٹ ذمی کو نفل صدقہ دینا جائز ہے۔
وجہ عن اسماء قالت قدمت علی امی راغبة فی عھد قریش وھی راغمة مشرکة فقلت یا رسول اللہ ان امی قدمت علی وھی راغمة مشرکة افاصلھا؟ قال نعم فصلی امک (ج) (ابو داؤد شریف ، باب الصدقة علی اہل الذمة ص ٢٤٣ نمبر ١٦٦٨) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرک کے ساتھ صلہ رحمی کرنا نفلی صدقہ دینا جائز ہے۔
]٥٢٤[(١٢)زکوة کسی مالدارکو نہ دی جائے۔
حاشیہ : (الف) اللہ نے ان پر زکوة فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقراء پر تقسیم کی جائے گی (ب) حضرت ثوری سے منقول ہے کہ کوئی آدمی اپنے ذوی الارحام کے نفقہ کا ذمہ دار ہو اس پر اپنی زکوة خرچ نہ کرے۔ اور نہ دے میت کے کفن میں۔ اور نہ میت کے قرض میں۔ اور نہ مسجد کے بنانے میں۔ اور نہ قرآن کے خریدنے میں۔اور نہ اس سے حج کیا جائے اور اس کو اپنے مکاتب کو دیں۔ اور نہ اس سے کوئی غلام خریدے جس کو آزاد کرے۔اور نہ یہود اور نصاری کو دے۔ اور نہ زکوة ہی سے اجرت پر کسی کو لیاجائے جو اس کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائے(ج) حضرت اسماء فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئی اس حال میں کہ عہد قریش کو چاہتی تھی اور غضبناک تھی کہ مشرکہ تھی۔میں نے کہا اے اللہ کے رسول ! میری ماں میرے پاس آئی ہے اس حال میں کہ وہ غضبناک ہے ،مشرکہ ہے۔کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپۖ نے فرمایا ہاں ! اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔