فی فک رقابھم ]٥١٩[(٧) والغارم من لزمہ دین]٥٢٠[ (٨) وفی سبیل اللہ منقطع الغزاة]٥٢١[ (٩) وابن السبیل من کان لہ مال فی وطنہ وھو فی مکان آخر لا شیء لہ فیہ فھذہ جھات الزکوة]٥٢٢[(١٠) وللمالک ان یدفع الی کل واحد منھم ولہ ان یقتصر علی صنف واحد]٥٢٣[ (١١) ولا یجوز ان یدفع الزکوة الی ذمی ولا یبنی بھا مسجد
]٥١٩[(٧)غارم ،مقروض وہ ہے جس پر دین لازم ہو گیا ہو۔
تشریح جس پر قرض لازم ہوا ہو اور اتنے روپے اس کے پاس نہ ہو جس سے قرض ادا کرکے نصاب کے مطابق بچے، تو چونکہ وہ غریب ہے اس لئے وہ بھی مستحق زکوة ہے۔
]٥٢٠[(٨) اور اللہ کے راستے میں، کا مطلب یہ ہے کہ غازیوں سے پیچھے رہ گیا ہو۔
تشریح غازیوں اور مجاہدوں کے پیچھے جو لوگ رہ گئے ہوں ان کو منقطع الغزاة کہتے ہیں۔ اور ان کو بھی زکوة کا مال دیکر امداد کرنا جائز ہے۔
]٥٢١[(٩) ابن السبیل، جس کا مال اس کے وطن میں ہو اور وہ دوسری جگہ میں ہو اور وہاں اس کے لئے کچھ نہ ہو۔
تشریح ابن السبیل : راستے کا بیٹا یعنی مسافر، جس کے گھر میں مال نصاب ہو لیکن اس کے پاس ابھی کچھ نہ ہو تو اس کو زکوة کا مال دیا جا سکتا ہے۔ تا کہ وہ گھر تک پہنچ جائے۔
]٥٢٢[(١٠) مالک کے لئے جائز ہے کہ زکوة کے ہر صنف والوں کو دے۔ اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ ایک قسم پر اکتفا کرے۔
تشریح آیت میںآٹھ قسموں کو زکوة دینے کا تذکرہ کیا ہے۔ لیکن اگر ایک قسم کو تمام زکوة دیدے تب بھی زکوة کی ادائیگی ہو جائے گی۔
وجہ اس اثر میں ہے عن حذیفة قال اذا اعطاھا فی صنف واحد من الاصناف الثمانیة التی سمی اللہ تعالی اجزأہ (الف) (مصنف ابن ابی شیبة ٨٥ ، ماقالوا فی الرجل اذا وضع الصدقة فی صنف واحد ج ثانی ص٤٠٥،نمبر ١٠٤٤٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ ایک قسم کو بھی زکوة دی دیگا تو کافی ہو جائیگا۔
فائدہ امام شافعی نے فرمایا کہ آیت میں جمع کا صیغہ ہے اس لئے کم از کم تین آدمی ہونے چاہئے۔ اور ہر قسموں کو انما کے ذریعہ گھیرا ہے اس لئے تمام قسموں کو زکوة دے، اور ہر قسم کے تین تین آدمیوں کو دے۔ ہم کہتے ہیں کہ قرآن نے ان قسموں کو بیان کیا کہ یہ سب مصرف ہیں۔ چاہے سبھی کو دیںچاہے کسی ایک کو بقدر ضرورت دیں ۔البتہ ضرورت سے زائد کسی ایک کو اتنا دیں کہ وہ مالدار بن جائیں یہ مکروہ ہے۔
]٥٢٣[(١١) نہیں جائز ہے کہ زکوة ذمی کو دے، اور نہ اس سے مسجد بنائے، اور نہ اس سے میت کو کفن دے، اور نہ اس سے غلام خریدے جس کو آزاد کیا جائے۔
وجہ (ا) زکوة کا کسی غریب مسلمان کو مالک بنانا ضروری ہے۔ کسی کافر کو زکوة دینے سے زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح کسی غریب کو یا
حاشیہ : (الف)حضرت حذیفہ سے منقول ہیں کہ اگر آٹھ قسموں میں سے ایک قسم کو دے دیا جس کا اللہ نے نام لیا ہے تو اس کو کافی ہو جائے گا۔