(١)الحمد للہ رب العالمین(٢) والعاقبة للمتقین(٣) والصلوة والسلام علی رسولہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔
نکتہ شاید رحمن کو مقدم کرنے کی حکمت یہ ہو کہ اس کا تعلق دنیا والوں کے ساتھ ہے اور دنیا مقدم ہے ۔اس لئے بسم اللہ الرحمن الرحیم میں رحمن کو مقدم کیا۔
(١) تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ الحمد للہ کو مقدم کرنے کی وجہ : قرآن کریم میں الحمد بالکل شروع میں ہے۔ حدیث میں ہے عن ابی ھریرة قال قال رسول اللہ ۖ کل امر ذی بال لا یبدأ فیہ بالحمد اقطع (ابن ماجہ شریف، باب خطبة النکاح،ص ٢٧٢،نمبر ١٨٩٤) ترجمہ : جو اہم کام الحمد کے ذریعہ شروع نہ کیا جائے وہ ناقص ہے۔اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ الحمد للہ کے ذریعہ کتاب شروع کی جائے۔
الحمد : ممدوح کی اختیاری خوبیوں کو زبان سے بیان کرنا اس کو حمد کہتے ہیں۔ چاہے نعمت کے مقابلے پر ہو یا نعمت کے مقابلے پر نہ ہو۔اللہ کی جانب سے ہر وقت نعمتوں کی بارش ہوتی رہتی ہے اس لئے ہم جو بھی حمد کریںگے وہ نعمت کے مقابلہ پر ہی ہوگی۔ ال الحمد میں الف لام استغراق کے لئے ہیں۔ استغراق کا مطلب ہے کہ تمام تعریفیں جو دنیا میں ہو سکتی ہیں وہ سب اللہ تعالی کے لئے ہیں۔ جمہور کی رائے یہی ہے۔ الف لام کبھی جنس کے لئے ہوتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ماہیت اور حقیقت حمد اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ کبھی الف لام عہد اور متعین چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہوتے ہیں۔ یعنی متعین تعریفیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں وہ اللہ کے لئے ہیں۔
رب العالمین : رب کے معنی ہیں آہستہ آہستہ کسی چیز کی پرورش کرنا۔ اللہ پورے جہانوں کو بتدریج غذا مہیا کرتے ہیں اور اس کی پرورش کرتے ہیں اس لئے اس کو رب کہتے ہیں ۔ لفظ رب تنہا بولا جائے تو صرف اللہ کے لئے بولا جائے گا۔ اور اضافت کے ساتھ استعمال ہو تو دوسرے کے لئے بھی رب بولا جائے گا۔ جیسے قرآن کریم کی آیت میں ہے اذکرنی عند ربک فانساہ الشیطان ذکر ربہ ۔آیت ٤٢ ، سورۂ یوسف ١٢، یہاں رب کو اضافت کے ساتھ استعمال کیا اورمراد قیدیوں کے بادشاہ ہیں۔
العالمین : عالمین جمع کاصیغہ ہے، واحد ہے عالَم۔ یہ علامت سے مشتق ہے۔ چونکہ دنیا کی تمام چیزیں بنانے والے پر علامت ہیں اس لئے اس دنیا کو عالَم کہتے ہیں۔ یہ اسم فاعل کے وزن پر اسم آلہ ہے۔جیسے خاتم اور طابع ، مہر لگانے کا آلہ۔
(٢) والعاقبة للمتقین : ترجمہ تقوی اختیار کرنے والوں کے لئے اچھا انجام ہے۔ التقوی : وقایة سے مشتق ہے، اپنے آپ کو بچانا ۔ گناہوں پر اصرار نہ کرے اور عبادات پر غرور نہ کرے اس کو تقوی کہتے ہیں۔ بعض نے فرمایا کہ حضور ۖ اور صحابہ کرام کی اتباع کامل کا نام تقوی ہے۔ اسی تقوی کا اسم فاعل متقی ہے۔ اور اسی کی جمع متقین ہے۔ عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جو متقی لوگ ہیں آخر کار وہی لوگ دنیا اور آخرت میں کامیاب رہتے ہیں۔
(٣)والصلوة والسلام الخ درود اور سلام ہو اللہ کے رسول محمد ۖ پر اور آپ کی آل اور آپ کے تمام اصحاب پر ۔
تشریح الصلوة : صلوة کے معنی دعا، لیکن اگر اس کی نسبت اللہ کی طرف ہو تو اس کے معنی رحمت کرنا، اور فرشتے کی طرف ہو تو صلوة کے معنی