بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سب سے پہلے لکھنے کی وجہ یہ ہے (الف) حضور ۖ کو سب سے پہلی وحی آئی تو اس میں اللہ کے نام سے پڑھنے کے لئے کہا گیا اقرء باسم ربک الذی خلق آیت نمبر١ سورة العلق ٩٦(ب) حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو خط لکھا تو بسم اللہ سے شروع کیا۔ انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت نمبر ٣٠ سورة النمل ٢٧(ج) قرآن کریم بسم اللہ سے شروع ہے (د) حضور ۖ کے تمام خطوط اور تمان خطبات بسم اللہ سے شروع ہیں۔ اس لئے مصنف نے کتاب کو بسم اللہ سے شروع فرمایا۔(ہ) حدیث میں ہے عن ابی ھریرةقال قال رسول اللہ ۖ کل کلام لا یبدأ فیہ بحمد اللہ فھو اجذم(ابوداؤد شریف،باب الہدی فی الکلام،ج٢، ص ٣١٧،نمبر٤٨٤٠ ابن ماجہ شریف، باب خطبة النکاح،ص ٢٧٢،نمبر١٨٩٤) ہر وہ کلام جوحمد کے ذریعہ شروع نہ کیا جائے وہ ناقص ہوتا ہے ۔اوربسم اللہ بھی حمد کا حصہ ہے اس لئے بسم اللہ سے شروع کرنے کا ثبوت ہوا۔
نوٹ کسی کام سے پہلے ذکر کرنا چاہئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ بسم اللہ ہی کے ذریعہ ہو۔ تسبیح ، تقدیس کے ذریعہ بھی ذکر ہو سکتا ہے۔ لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ کے ذریعہ ہو۔ کیونکہ قرآن کریم میں بسم اللہ کے ذریعہ قرآن کی ابتدا کی گئی ہے۔
بسم اللہ : میں ب حرف جار ہے جس کے بہت سے معانی ہیں۔ یہاں اس کے معانی الصاق کے لئے ہیں۔یعنی کسی فعل کے ساتھ چپکانا۔ یا اس کا معنی استقامت کے لئے ہیں یعنی اللہ کے نام کی مدد سے شروع کرتا ہوں۔ ب حرف جر ہے اس لئے اس کے متعلق کے لئے کوئی فعل محذوف ماننا ہوگا۔ تاکہ حرف جر اس کا متعلق ہو جائے۔ بہتر ہے کہ ابتدأ محذوف مانیں تاکہ مطلب یہ ہو کہ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ ب متعلق کے لئے ہو گیا اور اسم تو اللہ کے تابع ہے تو گویا کہ لفظ اللہ ہی سب سے مقدم ہو گیا۔ جو اصل مقصود تھا۔
اللہ : اللہ کے نناوے نام صفاتی ہیں۔ اور یہ نام ذاتی ہے۔ اللہ الالہ سے مشتق ہے۔ الہ کے معنی ہیں معبود اور الف لام لگا دینے سے ترجمہ ہو گیا خاص معبود یعنی اللہ۔ دوسرے معبود تو ہے ہی نہیں لیکن مشرک لوگوں نے اپنے اعتقاد میں بنا رکھا ہے اس سے جدا کرکے خاص معبود اللہ کا نام ہوا۔
الرحمن : فعلان کے وزن پر ہے۔ رحمت سے مشتق ہے۔ رحمت کے معنی ہیں رقت قلب۔ اللہ میں رقت قلب محال ہے کیوں کہ وہ ذات قلب اور دل سے پاک ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف رحمت کی نسبت ہو تو اس کے معانی ہوتے ہیں فضل و کرم کرنا، احسان کرنا۔رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ترجمہ ہے وہ ذات جس کی رحمت ہر چیز کو گھیری ہوئی ہے۔ انتہائی مہربان۔
رحیم : فعیل کے وزن پر۔ یہ لفظ بھی رحمت سے مشتق ہے اور مبالغہ کا صیغہ ہے۔ البتہ اس میں رحمن کے مقابلہ میں کم مبالغہ ہے۔ کیوں کہ رحمن میں حرف زیادہ ہے۔ اس میں پانچ حروف ہیں اور رحیم میں چار حروف ہیں۔ اس لئے رحمن میں مبالغہ زیادہ ہوا۔حضور اکرم ۖ کی دعا میں آیا ہے یا رحمن الدنیا و رحیم الآخرة۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا والوں پر اللہ کی مہربانی زیادہ ہے بنسبت آخرت والوں کے۔ کیوںکہ دنیا میں مؤمن اور کافر دونوں پر مہربانی ہو رہی ہے۔ اور آخرت میں صرف مؤمن پر مہربانی ہوگی۔