Deobandi Books

شرح ثمیری شرح اردو قدوری جلد 1 - یونیکوڈ

31 - 493
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم کو سب سے پہلے لکھنے کی وجہ یہ ہے (الف) حضور ۖ کو سب سے پہلی وحی آئی تو اس میں اللہ کے نام سے پڑھنے کے لئے کہا گیا اقرء باسم ربک الذی خلق  آیت نمبر١ سورة العلق ٩٦(ب) حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو خط لکھا تو بسم اللہ سے شروع کیا۔ انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمن الرحیم آیت نمبر ٣٠ سورة النمل ٢٧(ج) قرآن کریم بسم اللہ سے شروع ہے (د) حضور ۖ کے تمام خطوط اور تمان خطبات بسم اللہ سے شروع ہیں۔ اس لئے مصنف نے کتاب کو بسم اللہ سے شروع فرمایا۔(ہ) حدیث میں ہے عن ابی ھریرةقال قال رسول اللہ ۖ کل کلام لا یبدأ فیہ بحمد اللہ فھو اجذم(ابوداؤد شریف،باب الہدی فی الکلام،ج٢، ص ٣١٧،نمبر٤٨٤٠ ابن ماجہ شریف، باب خطبة النکاح،ص ٢٧٢،نمبر١٨٩٤) ہر وہ کلام جوحمد کے ذریعہ شروع نہ کیا جائے وہ ناقص ہوتا ہے ۔اوربسم اللہ بھی حمد کا حصہ ہے اس لئے بسم اللہ سے شروع کرنے کا ثبوت ہوا۔ 
 نوٹ  کسی کام سے پہلے ذکر کرنا چاہئے لیکن ضروری نہیں ہے کہ بسم اللہ ہی کے ذریعہ ہو۔ تسبیح ، تقدیس کے ذریعہ بھی ذکر ہو سکتا ہے۔ لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ بسم اللہ کے ذریعہ ہو۔ کیونکہ قرآن کریم میں بسم اللہ کے ذریعہ قرآن کی ابتدا کی گئی ہے۔
بسم اللہ  :  میں ب حرف جار ہے جس کے بہت سے معانی ہیں۔ یہاں اس کے معانی الصاق کے لئے ہیں۔یعنی کسی فعل کے ساتھ چپکانا۔ یا اس کا معنی استقامت کے لئے ہیں یعنی اللہ کے نام کی مدد سے شروع کرتا ہوں۔ ب حرف جر ہے اس لئے اس کے متعلق کے لئے کوئی فعل محذوف ماننا ہوگا۔ تاکہ حرف جر اس کا متعلق ہو جائے۔ بہتر ہے کہ ابتدأ محذوف مانیں تاکہ مطلب یہ ہو کہ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔ ب متعلق کے لئے ہو گیا اور اسم تو اللہ کے تابع ہے تو گویا کہ لفظ اللہ ہی سب سے مقدم ہو گیا۔ جو اصل مقصود تھا۔ 
اللہ  :  اللہ کے نناوے نام صفاتی ہیں۔ اور یہ نام ذاتی ہے۔ اللہ الالہ سے مشتق ہے۔ الہ کے معنی ہیں معبود اور الف لام لگا دینے سے ترجمہ ہو گیا خاص معبود یعنی اللہ۔ دوسرے معبود تو ہے ہی نہیں  لیکن مشرک لوگوں نے اپنے اعتقاد میں بنا رکھا ہے اس سے جدا کرکے خاص معبود اللہ کا نام ہوا۔
الرحمن  :  فعلان کے وزن پر ہے۔ رحمت سے مشتق ہے۔ رحمت کے معنی ہیں رقت قلب۔ اللہ میں رقت قلب محال ہے کیوں کہ وہ ذات قلب اور دل سے پاک ہے۔ اس لئے اللہ کی طرف رحمت کی نسبت ہو تو اس کے معانی ہوتے ہیں فضل و کرم کرنا، احسان کرنا۔رحمن مبالغہ کا صیغہ ہے۔ ترجمہ ہے وہ ذات جس کی رحمت ہر چیز کو گھیری ہوئی ہے۔ انتہائی مہربان۔
رحیم  :  فعیل کے وزن پر۔ یہ لفظ بھی رحمت سے مشتق ہے اور مبالغہ کا صیغہ ہے۔ البتہ اس میں رحمن کے مقابلہ میں کم مبالغہ ہے۔ کیوں کہ رحمن میں حرف زیادہ ہے۔ اس میں پانچ حروف ہیں اور رحیم میں چار حروف ہیں۔ اس لئے رحمن میں مبالغہ زیادہ ہوا۔حضور اکرم ۖ کی دعا میں آیا ہے یا رحمن الدنیا و رحیم الآخرة۔ جس سے محسوس ہوتا ہے کہ دنیا والوں پر اللہ کی مہربانی زیادہ ہے بنسبت آخرت والوں کے۔ کیوںکہ دنیا میں مؤمن اور کافر دونوں پر مہربانی ہو رہی ہے۔ اور آخرت میں صرف مؤمن پر مہربانی ہوگی۔  
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ( کتاب الطھارة ) 35 1
3 ( باب التیمم ) 73 2
4 (باب المسح علی الخفین) 82 2
5 (باب الحیض) 90 2
6 (باب الانجاس) 101 2
7 (کتاب الصلوة) 113 1
8 (باب الاذان) 121 7
9 (باب شروط الصلوة التی تتقدمھا) 127 7
10 (باب صفة الصلوة) 134 7
11 (باب قضاء الفوائت) 192 7
12 (باب الاوقات التی تکرہ فیھا الصلوة) 195 7
13 (باب النوافل) 200 7
14 (باب سجود السھو) 209 7
15 (باب صلوة المریض) 216 7
16 (باب سجود التلاوة) 221 7
17 (باب صلوة المسافر) 226 7
18 (باب صلوة الجمعة) 238 7
19 (باب صلوة العدین ) 250 7
20 ( باب صلوة الکسوف) 259 7
21 ( باب صلوة الاستسقائ) 263 7
22 ( باب قیام شہر رمضان) 265 7
23 (باب صلوة الخوف) 268 7
24 ( باب الجنائز) 273 7
25 ( باب الشہید) 291 7
26 ( باب الصلوة فی الکعبة) 295 7
27 ( کتاب الزکوة) 298 1
28 (باب زکوة الابل ) 303 27
29 (باب صدقة البقر ) 308 27
30 ( باب صدقة الغنم) 312 27
31 ( باب زکوة الخیل) 314 27
32 (باب زکوة الفضة) 322 27
33 ( باب زکوة الذھب ) 325 27
34 ( باب زکوة العروض) 326 27
35 ( باب زکوة الزروع والثمار ) 328 27
36 (باب من یجوز دفع الصدقة الیہ ومن لایجوز) 337 27
37 ( باب صدقة الفطر) 347 27
38 ( کتاب الصوم) 354 1
39 ( باب الاعتکاف) 378 38
40 ( کتاب الحج ) 383 1
41 ( باب القران ) 426 40
42 ( باب التمتع ) 433 40
43 ( باب الجنایات ) 442 40
44 ( باب الاحصار ) 471 40
45 ( باب الفوات ) 478 40
46 ( باب الھدی ) 481 40
Flag Counter