البدن واثاث المنازل ودواب الرکوب و عبید الخدمة وسلاح الاستعمال زکوة]٤٥٦[ (٥) ولا یجوز اداء الزکوة الا بنیتہ مقارنة للاداء او مقارنة لعزل مقدار الواجب۔
اصلیہ سے خارج ہو گی یا اوپر کی چیزیں تجارت کے لئے اور بیچنے خریدنے کے لئے ہوں تو ان کی قیمت میں زکوة واجب ہوگی۔
وجہ (١)حاجت اصلیہ کی چیزوں میں شریعت زکوة واجب نہیں کرتی ہے (٢)حدیث میں ہے سمع ابا ھریرة عن النبی ۖ قال خیر الصدقة ماکان عن ظھر غنی وابدأ بمن تعول (بخاری شریف، باب لا صدقة الا عن ظہر غنی ص ١٩٢ نمبر ١٤٢٦) حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت سے زیادہ ہونے کے بعد زکوة واجب ہوگی٣٠) عن ابی ھریرة ان رسول اللہ ۖ قال لیس علی المسلم فی عبدہ ولا فی فرسہ صدقة (الف) (مسلم شریف ، کتاب الزکوة،ص ٣١٦ نمبر ٩٨٢) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خدمت کے غلام اور سواری کے گھوڑے میں زکوہ نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں لوگوں کی ضرورت کی چیزیں ہیں۔ انہیں پر اوپر کی تمام ضروریات کی چیزوںکو قیاس کر لیں(٢) حدیث میں ہے عن علی قال زھیرا حسبہ عن النبی ۖ ... وفی البقر فی کل ثلاثین تبیع والاربعین مسنّة ولیس علی العوامل شیء (ب) (ابو داؤد شریف ، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٨ نمبر ١٥٧٢) (٣) عن عمر ابن شعیب عن ابیہ عن جدہ عن النبی ۖ قال لیس فی الابل العوامل صدقة (ج) (دار قطنی ٦ باب لیس فی العوامل صدقة ج ثانی ص ٨٨ نمبر ١٩٢١) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وہ جانور جو روزمرہ کے کام آتے ہیں اور ضرورت کی چیز ہے مثلا ہل جوتنا اور سواری کرنا اس میں زکوة واجب نہیں ہے۔
اصول حاجت اصلیہ کی چیزوں میں زکوة واجب نہیں ہے۔
لغت دور السکنی : وہ گھر جس میں آدمی بسیرا کرتا ہو ، اثاث : گھر کا سامان ، فرنیچر۔
]٤٥٦[(٥)زکوة کی ادائیگی جائز نہیں ہے مگر ایسی نیت کے ساتھ جو ادائیگی کے ساتھ ملی ہوئی ہو یا مقدار واجب کو الگ کرتے وقت ملی ہوئی ہو۔ تشریح جس وقت زکوة فقیر کے ہاتھ میں دے رہا ہو اس وقت زکوة دینے کی نیت ہونی چاہئے تب زکوة ادا ہو گی۔ اگر اس وقت مثلا قرض دینے کی نیت ہے اور بعد میں زکوة کی نیت کر لی تو زکوة کی ادائگی نہیں ہوگی۔ یا اس وقت کچھ نیت نہیں تھی روپیہ دینے کے بعد زکوة دینے کی نیت کی تو زکوة کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ یا جس وقت حساب کرکے جتنا روپیہ زکوة دیاہے اس کو اپنے مال سے الگ کیا اس وقت زکوة کی نیت ہو تب بھی زکوة ادا ہو جائے گی۔ اس صورت میں چاہے زکوة فقیر کے ہاتھ میں دیتے وقت زکوة کی نیت نہیں کی ہو ۔کیونکہ جس وقت اس مال کو اپنے مال سے الگ کر رہاتھا اس وقت زکوة کی نیت کر چکا تھا اور وہی مال اس وقت دے رہا ہے اس لئے پہلی نیت ہی کافی ہو جائے گی۔
وجہ پہلے گزر چکا ہے کہ عبادات اصلیہ اس وقت ادا ہوگی جب عبادات کی نیت کی ہو۔ اور زکوة عبادت ہے اس لئے اس کی ادائیگی کے وقت
حاشیہ : (الف) آپۖ نے فرمایا مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں صدقہ نہیں ہے(ب) حضرت علی سے روایت ہے کہ زہیر نے فرمایا کہ میرا گمان ہے کہ حضورۖ سے منقول ہے ... کہ ہر تیس گائے میں ایک سال کا بچھڑا اور چالیس میں دو سال کا بچھڑا، اور کام کرنے والے جانوروں پر کچھ نہیں ہے (ج) حضورۖ نے فرمایا کام کرنے والے اونٹوں میں صدقہ نہیں ہے۔