]٤٥٣[(٢) ومن کان علیہ دین محیط بمالہ فلا زکوة علیہ]٤٥٤[ (٣) وان کان مالہ اکثر من الدین زکَّی الفاضل اذا بلغ نصابا]٤٥٥[(٤) ولیس فی دور السکنی و ثیاب
رسول اللہ ۖ لا زکوة فی مال امریٔ حتی یحول علیہ الحول (الف) (دار قطنی ١ باب وجوب الزکوة بالحول ج ثانی ص ٧٦ نمبر ١٨٧٠) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ زکوة مال نصاب پر سال گزرنے کے بعد واجب ہوتی ہے۔
]٤٥٣[(٢) جس پر ایسا قرض ہو کہ اس کے مال کو گھیرے ہوئے ہو تو اس پر زکوة نہیں ہے۔
تشریح مثلا ایک آدمی کے پاس پانچ سو درہم موجود ہیں لیکن اس پر پانچ سو قرض بھی ہے تو اگر قرض ادا کرے گا تو کچھ نہیں بچے گا اس لئے گویا کہ اس کے پاس مال نصاب ہی نہیں ہے اس لئے اس پر زکوة واجب نہیں ہوگی ۔
وجہ اثر میں ہے ان عثمان بن عفان کان یقول ھذا شھر زکوتکم فمن کان علیہ دین فلیؤد دینہ حتی تحصل اموالکم فتؤدون منھا الزکوة (ب) (مؤطا امام مالک،الزکوة فی الدین ص ٢٨٤ سنن للبیھقی ، باب الدین مع الصدقة ج رابع، ص٢٤٩، نمبر ٧٦٠٦ ) اس اثرسے معلوم ہوا کہ قرض ادا کرکے جو باقی بچے اگر وہ نصاب تک پہنچے اور اس پر سال گزر جائے تو اس باقی ماندہ مال میں زکوة ہے ورنہ نہیں۔
]٤٥٤[(٣) اور اگر اس کا مال قرض سے زیادہ ہو تو زیادہ مال کی زکوة واجب ہوگی اگر وہ نصاب تک پہنچ جائے۔
وجہ اثر میں ہے عن ابن عباس و ابن عمر فی الرجل یستقرض فینفق علی ثمرتہ و علی اھلہ قال قال ابن عمر یبدأ بما استقرض فیقضیہ و یزکی ما بقی،قال قال ابن عباس یقضی ما انفق علی الثمرة ثم یزکی ما بقی (ج) (سنن للبیھقی ، باب الدین مع الصدقة ج رابع ص ٢٤٩،نمبر٧٦٠٨ ،کتاب الزکوة) اس اثر سے معلوم ہوا کہ پہلے قرض ادا کرے گا پھر جو بچے گا اگر وہ نصاب تک پہنچ جائے تو اس میں زکوة واجب ہوگی۔
]٤٥٥[(٤)زکوة واجب نہیں ہے رہنے کے گھر میں ،بدن کے کپڑے میں، گھر کے سامان میں، سواری کے جانور میں ،خدمت کے غلام میں اور استعمال کے ہتھیار میں۔
تشریح وہ چیزیں جو انسانی زندگی میں ضرورت کے لئے ہیں اور روز مرہ کے استعمال میں آتی ہیں ان میں زکوة واجب نہیں ہوگی۔ بلکہ ضرورت
حاشیہ : (پچھلے صفحہ سے آگے)یہ ہے کہ جب تمہارے پاس دو سو درہم ہو جائیں اور اس پر سال گزر جائے تو اس میں پانچ درہم ہیں ۔اور سونے میں کچھ نہیں ہے یہاں تک کہ بیس دینار ہو جائیں۔پس جب کہ بیس دینار ہو جائیں اور سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار ہے۔اور جو زیادہ ہو وہ اسی حساب سے ہے(الف) آپۖ نے فرمایا کسی انسان کے مال میں زکوة نہیں ہے یہاں تک کہ اس پر سال گزر جائے (ب)حضرت عثمان کہا کرتے تھے کہ یہ تمہاری زکوة کا مہینہ ہے۔تو جس پر قرض ہو تو وہ اپنا قرض ادا کردے یہاں تک کہ تمہارا مال خالص ہو جائے اور اس سے تم زکوة ادا کر سکو(ج) حضرت ابن عمر سے اس شخص کے بارے میں منقول ہے جو قرض لے اور اپنے پھل یا اہل پر خرچ کردے تو ابن عمر نے فرمایا جو قرض لیا ہے اس سے شروع کرے اور اس کو ادا کرے پھر جو باقی رہے اس کی زکوة دے۔ اور حضرت ابن عباس نے فرمایا جو پھل پر خرچ کیا اس کو ادا کرے پھر جو باقی رہے اس کی زکوة دے۔