حال علیہ الحول ولیس علی صبی ولا مجنون ولا مکاتب زکوة۔
فائدہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ بچے کے مال میں زکوة ہے۔
وجہ اس لئے کہ یہ وجوب مالیہ ہے اور مال میں جس طرح ٹیکس وجب ہوتا ہے اسی طرح زکوة بھی واجب ہوگی (٢) حدیث میں ہے عن عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی ۖ خطب الناس فقال الا من ولی یتیما لہ مال فلیتجر فیہ ولایترکہ حتی تاکلہ الصدقة (الف) (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی زکوة مال الیتیم ص ١٣٩ نمبر ٦٤١ دار قطنی نمبر ١٩٥١)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یتیم کے مال میں زکوة ہے اور یتیم اس کو کہتے ہیں جو نا بالغ ہو اس لئے اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بچے کے مال میں زکوة ہے (٢) اثر میں ہے ان عمر بن خطاب قال ابتغوا بالموال الیتمی لا تأکلھا الصدقة (ب) (دار قطنی ١١،باب وجوب الزکوة فی مال الصبی والیتیم ج ثانی ص ٩٥ نمبر ١٩٥٤سنن للبیہقی،نمبر ٧٣٤٠) اس اثر سے بھی معلوم ہوا کہ بچے کے مال میں زکوة ہے۔ زکوة واجب ہونے کے لئے چوتھی شرط عقل کی ہے۔اس کے بارے میں حدیث گزر چکی۔پانچویں شرط ہے نصاب کا مکمل مالک ہو ۔کیونکہ تھوڑے سے مال کا مالک ہوگا اور اس میں زکوة دے گا تو آج زکوة دے گا اور کل لوگوں سے زکوة مانگے گا۔اس لئے شرط لگائی کہ نصاب کا مالک ہو۔اور نصاب یہ ہے کہ سال بھر کھا پی کر دو سو درہم بچے،یا بیس مثقال سونا بچے تو اس میں چالیسواں حصہ زکوة ہے یعنی چالیس درہم میں ایک درہم لازم ہوگا۔اور اونٹ، گائے ،بکری اور کاشتکاروں کا نصاب الگ الگ ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ دلیل اس حدیث میں ہے ۔ سمعت ابا سعیدالخدری یقول قال رسول اللہ ۖ لیس فیما دون خمس ذود صدقة ولیس فیمادون خمس اواق صدقة ولیس فیما دون خمسة اوسق صدقة (ج) (ابوداؤد شریف ، باب ما تجب فیہ الزکوة ص ٢٢٤ نمبر ١٥٥٨ بخاری شریف ، باب زکوة الورق ص ١٩٤ کتاب الزکوة نمبر ١٤٤٧) ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے تو پانچ اوقیہ دو سو درہم ہوئے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو سو درہم سے کم میں زکوة واجب نہیں ہے۔ اسی طرح پانچ اونٹ سے کم میں زکوة واجب نہیں ہے۔اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ پانچ وسق سے کم غلہ پیدا ہوتو زکوة یعنی عشر نہیں ہے۔البتہ دوسری حدیث کی وجہ سے حنفیہ کا اس بارے میں اختلاف ہے جس کی تفصیل آگے آئے گی۔
نوٹ ملک تام کی قید اس لئے لگائی کہ مکاتب چیز کا مالک ہوتا ہے لیکن اس کی ملکیت اس پر تام نہیں ہے اس لئے اس پر زکوة واجب نہیں ہے۔زکوة واجب ہونے کے لئے چھٹی شرط یہ ہے کہ اس مال پر سال گزرے۔اس کی دلیل یہ حدیث ہے عن علی عن النبی ۖ ببعض اول الحدیث قال فاذا کانت لک مائتا درہم و حال علیہ الحول ففیھا خمسة دراھم ولیس علیک شیء یعنی فی الذھب حتی یکون لک عشرون دینارا فاذا کانت لک عشرون دینارا و حال علیہ الحول ففیھا نصف دینارا فما زاد فبحساب ذلک (د) (ابو داؤد شریف، باب فی زکوة السائمة ص ٢٢٨ نمبر ٥٧٣،نمبر١٥٧٣)عن ابن عمر قال قال
حاشیہ : (الف) آپۖ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا سن لو ! جو یتیم کی نگہبانی کرے اور یتیم کا مال ہو تو اس میں تجارت کرنی چاہئے۔اور اس کو اسطرح نہ چھوڑ دو کہ صدقہ اس کو کھا جائے (ب) حضرت عمر نے فرمایا یتیم کے مال کے ذریعہ تجارت تلاش کرو تاکہ صدقہ اس کو کھا نہ جائے(ج) آپۖ نے فرمایا پانچ اونٹ سے کم میں صدقہ یعنی زکوة نہیں ہے،اور پانچ اوقیہ چاندی سے کم میں زکوة نہیں، اور پانچ وسق غلے سے کم میں صدقہ نہیں ہے(د) آپۖ کی بعض حدیث کا ٹکڑا(باقی اگلے صفحہ پر)